سرینگر:چار ماہ کے طویل وقفے کے بعد تواریخی جامع مسجد سرینگر میںنماز جمعہ ادا کی گئی ۔ اس موقعہ پر ایس او پیز پر مکمل طور پر عملدر آمد کے بیچ لوگوں کی بھاری تعداد نے نماز جمعہ ادا کی ۔ سی این آئی ے مطابق گزشتہ مسلسل چار ماہ کے بعد کشمیر کی سب سے بڑی عبادتگاہ اور روحانی مرکز جامع مسجد سرینگر کو آج نماز جمعہ کیلئے جب باضابطہ کھو ل دیا گیا توجمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے بڑی تعدادمیںخواتین ، مرد ، بزرگوں اور نوجوانوں نے کووڈ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں حاضری دیکر نماز جمعہ کا عظیم اور اہم فریضہ ادا کیا۔اس ضمن میں انجمن اوقاف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس موقعہ پر عوام کے جذبات دیدنی تھے جنہوں نے ایک لمبے عرصے کے بعد اذان کی آواز سنتے ہی جوق در جوق والہانہ انداز میں جامع مسجد میں حاضری دی اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر بیحد خوشی اور طمانیت کا اظہار کیا تاہم اس موقعہ پرلوگوںنے میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کی کمی شدت سے محسوس کی جن کی وجہ سے صدیوں پر محیط نہ صرف قال اللہ وقال الرسول ﷺ کی عظیم دینی، تبلیغی اور اصلاحی روایت قائم و دائم چلی آرہی ہے لیکن بدقسمتی سے میرواعظ کی گزشتہ دو سال سے لگاتار نظر بندی کے سبب جامع مسجد کے منبر و محراب نہ صرف خاموش ہیںبلکہ ہر سو اْداسی اور مایوسی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔اس موقعہ پر جامع مسجد کے خطیب و امام مولانا احمد سعید نقشبندی نے تقریر کرتے ہوئے میرواعظ کی بلا جواز اور زور زبردستی کی کارروائی کے تحت موصوف کی مسلسل دو سال سے نظر بندی کیخلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکام کا یہ آمرانہ رویہ سراسر مداخلت فی الدین ہے اور حکمرانوں کے اس عمل سے کشمیری عوام کے دینی اور مذہبی جذبات نہ صرف بری طرح مجروح ہو رہے ہیں بلکہ وہ اس اقدام کی ہر سطح پر مخالفت کررہے ہیں۔نقشبندی نے میرواعظ کی فوری نظربندی کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میرواعظ کی نظربندی سے کشمیر میں ملی،سماجی،دینی اور سیاسی حلقوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پائی جارہی ہے جو حد درجہ تشویشناک ہے۔