کشمیر جہاں اپنی خوبصورتی اور رعنائی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں مقامی دستکاری نے بھی اس خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہیں تاہم گزشتہ دو دہائیوں سے یہاں کے دستکار اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ مقامی دستکار جن میں مرد، خواتین، بزرگ اور بچے شامل ہیں، نے اس صنعت کو اپنی انگلیوں میں بھرے طلسماتی ہنر سے کئی برسوں تک زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم امتداد زمانہ کےساتھ دستکاروں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہونے لگی کیوں کہ متواتر حکومتوں کی جانب سے یہ صنعت ہمیشہ سے عدم توجہی کا شکار رہی۔ماضی قریب میں مقامی دستکاری وادی کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی تھی جب عوام کا بیشتر حصہ اس کےساتھ وابستہ رہ کر اپنا روزگار کمانے میں مصروف تھا۔شہر سرینگر کے کئی علاقے اس صنعت کے عینی گواہ ہے جہاں گھر کے بیشتر افراد اس صنعت سے وابستہ ہوکر بڑے بزرگوں کے کام میں بہ آسانی ہاتھ بٹاتے رہتے تھے۔ تاہم حکومتوں کی عدم دلچسپی اور معاندانہ اپروچ کے نتیجے میںیہ صنعت نہ صرف روبہ زوال ہوئی بلکہ اس سے وابستہ افراد بھی بے روزگاری کی نذر ہوگئے۔ آج کی تاریخ میں یہ صنعت تباہی کی کگار پر کھڑی ہے جہاں سے اس کی واپسی کی اُمیدیں نہایت ہی مفقود دکھائی دیتی ہے۔وابستگان کا ماننا ہے کہ کم آمدن اور حکومت کی عدم توجہی سے گھر کا گزارا ناممکن ہے کیوں کہ ان فنی مہارت رکھنے والے افراد نے جب بھی حکومت سے قرضے کی مانگ کی تب تب انہیں دفاتر کے چکر کاٹنے کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ لگا۔شہر و گام میں اس صنعت سے وابستہ ہزاروں غریب گھرانے کی لڑکیاں وابستہ ہوا کرتی تھیں جو نہ صرف اپنا بلکہ اپنے اہل و عیال کا بھی پیٹ پالتی تھیں۔ علاوہ ازیں ماضی میں یہ لڑکیاں اسی صنعت سے وابستہ رہ کر اپنی شادی بیاہ کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتی تھیں لیکن اب حالات مختلف ہے ۔یہاں کی متواتر حکومتوں نے جہاں دیگر شعبہ جات کو بڑھاوا دینے کےلئے کروڑوں اور اربوں کی رقم خرچ کی لیکن اس صنعت کو ہر بار نظر انداز کردیا گیا۔ اس کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ مقامی دستکاری ہی وہ ذریعہ ہے جس کی وجہ سے کشمیر بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے تاہم اس صنعت کےساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیوں روا رکھا گیا، یہ ناقابل سمجھ والی بات ہے۔کشمیر کا رُخ کرنے والے قومی و بین الاقوامی سیاحوں نے ہمیشہ سے اس صنعت اور اس کے وابستگان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہاں کا رخ کرنے والے سیاح اپنے وطن واپس جانے سے قبل مقامی دستکاری کی کوئی شئے اپنی ساتھ ضرور لے جاتے ہیں جس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ آج بھی اس صنعت میں غیر مقامی لوگوں کا دل جیتنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صنعت کی طرف توجہ دینے کےساتھ ساتھ اسے بھی دیگر شعبوں کے شانہ بشانہ مقام عطا کیا جائے۔