صحافت بلیک میلنگ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مقدس پیشہ کے طور پر جانا جاتا ہے جہاںصحافی اپنی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے عوام کے مسائل و مشکلات کو اُجاگر کرنے اور اُنہیں حکام بالا تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ ایک صحافی عوام اور حکام کے درمیان ایک پل کاکام انجام دیتا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ جموںکشمیر میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں شعبہ صحافت کا نظم اور تعلیم کا باضابطہ آغاز ہواجہاں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی پیشہ ورانہ طریقے پرتربیت اور صلاحیت سازی کا عمل انجام دیا جاتا ہے۔ ابتک ان اداروں سے بہت سارے طلبہ و طالبات پیشہ ور تعلیم حاصل کرکے علاقائی، قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوچکے ہیں جو کہ پوری ریاست کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ نیز یہاں کے تعلیمی اداروں کی جانب سے ایسے کورسز شروع کرنے سے قبل بھی وادی کشمیر میں صحافت سے وابستہ بہت سارے افراد جڑتے رہے ہیں جنہوں نے ایمان اور دیانتداری کیساتھ اس پیشے کا حق ادا کرتے ہوئے مقامی و بیرونی سطح پر بڑے بڑے میدان سر کئے۔لیکن اس انسان دوست پیشہ کو گزشتہ کئی برسوں سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں بعض مفاد خصوصی رکھنے والے عناصرسادہ لوح عوام کو لوٹنے اور بلیک میل کرنے کیلئے اسے کاروباری شکل دینے میں مشغول ہے۔علاوہ ازیں سماجی رابطہ گاہوں پر ایسے متعدد غیر رجسٹرڈ آن لائن نیوز پورٹل اور پیج قائم کئے گئے ہیں کہ اب عام انسان حقیقی اور جعلی صحافت میں فرق کرنا بھول چکا ہے۔یہاں بریکنگ نیوز کی آڑ میں باوثوق ذرائع سے خبر کی تصدیق کئے بغیر ہی شائع کیا جاتا ہے اور یوں بعض اوقات کئی معصوموں کی پگڑی اچھالی جاتی ہے جوکہ صحافتی اصولوں اور قواعد کیساتھ ایک کھلواڑ کے مترادف ہے۔ مزید برآں یہ ادارے معتبر اداروںکی جانب سے رپورٹ کی گئی نیوز کا بہ آسانی کاپی پیسٹ کرکے اپنے آن لائن نیوز پورٹلوں پر شائع کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں جوکہ حقیقی رپورٹر کی محنت کیساتھ نہ صرف زیادتی ہے بلکہ اس کی سرعام حوصلہ شکنی بھی کہلاتی ہے۔یہاں ماضی میں ان غیر رجسٹرڈ شدہ اداروں نے عوامی حلقوں میں غیر مصدقہ خبروں کی تشہیر کرکے عوام کے ایک وسیع حلقے کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ محض ہاتھ میں موبائل کیمرہ اور مائیک اُٹھاکر یہاں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا صحافی بناہوا ہے اور سرکاری محکمہ جات میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ جموں کشمیر کی موجودہ حکومت جنہوں نے کئی مرتبہ اس معاملے پر ملوث عناصر کیخلاف کڑی کارروائی کا انتباہ بھی دیا تاہم زمینی سطح پر اس سلسلے میں صورتحال جوں کی توں ہے۔ سرکارکی معنی خیز خاموشی ایسے اداروں اور عناصر کو مزید جرأت اور حوصلہ فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف صحافت کی حقیقی روح دن بہ دن پامال ہوتی جارہی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ معصوم لوگوں کی عزت بھی دائو پر لگ جاتی ہے جو کہ ایک تشویش ناک مسئلہ اُبھر کرسامنے آگیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں صحافت کی اصل شناخت اور اسکی روح کو برقرار رکھنے کیلئے ایسے غیر رجسٹرڈ اداروں کیخلاف قانونی کارروائی کا باضابطہ آغاز کرکے اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔