سر ینگر:جہاں کشمیر میں مہمان نوازی کی روایت صدیوں سے برقرار ہے وہیں وادی کی آبگاہوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے مہمان پرندوں کو شکار کرنے کا انکشاف ہوا ہے ۔۔ سی این ایس کے مطابق مشرقی یورپ، وسطی ایشیائی ملکوں ، چین ، سائبریا میں واقع آبی پناہ گاہوں میں درجہ حرارت منفی 40ڈگری گرجانے کے نتیجے میں ان علاقوں کے 2لاکھ سے زائد مہاجر آبی پرندے کشمیر کا رخ کرچکے ہیںجو یہاں مختلف آبگاہوں جن میں ہوکر سر، شالی بگ، جھیل ولر ، مانسبل اور دیگر چھوٹے جھیلوں کو اپنا مسکن بنارہے ہیں ۔ سی این ایس کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہوکر سر، جھیل ولر ، مانسبل اور شالہ بگ گاندربل میں شکاریوں کی ایک بڑی تعداد شام کے وقت ان مہمان پرندوں کو شکار کررہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ مہمان پرندے شام ہوتے ہی ان پرندوںکی زندگی خطرے میں دو چار ہوتی ہے اور وہ شام ہوتے ہی مختلف آبگاہوں میں اپنے قیام کیلئے رات بھر اڑان بھرتے دیکھے جاتے ہیںجبکہ رات گذارنے کی تلاش میں یہ پرندے ادھر ُادھر بھٹک جاتے ہیں مہمان پرندوںکی چہچاہٹ سے ان آبگاہوں کے نزدیک رہنے والوں کے لئے خوب نظارہ پیش کرتے ہیں اور لوگ جوش وخروش کے ساتھ انہیں دیکھنے کیلئے نکلتے ہیں۔ لیکن اب انکا شکار کرنے سے ان مہمان پرندوں کی زندگی خطرے سے خالی نہیں ہے مقامی لوگوں کے مطابق گو کہ جموں کشمیر میںآبی پرندوں کو شکار کرنے پر سرکاری پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود پرندوں کیلئے شکاریوں کا خطرہ کم نہیں ہوا ہے ۔ چونکہ یہ پرندے صبح اور شام کے وقت کافی کم اونچائی کی اڑان بھرتے ہیں اسلئے شکاریوں کے لئے انہیں شکار کرنا آسان بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماہرین اور دوسرے ذی شعور لوگوں کو پرندوں کی سلامتی کے بارے میں خدشہ لاحق ہے ۔ اس سلسلے میں بانڈی پورہ کے حبیب اللہ نامی ایک شہری نے سی این ایس کو بتایا’’اگر چہ مہاجر پرندوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے وائلڈ لائف پروٹیکشن کے اہلکار متحرک ہیں جنہیں پرندوں کو ہر ممکن تحفظ دینے کے سخت ہدایات دئے گئے تاہم جب یہ پرندے غذا کی تلاش میںجھیلوں اور آبگاہوں کی طرف نکل پڑتے ہیں تو انکا شکار کیا جاتا ہے ۔ ایک اور شہری نے بتایا کہ آبی پرندوں کو بیرون ممالک سے آکر ہمارے جھیلوں اور آبگاہوں میں بیٹھنااس قوم کے لئے قدرت کی دین اور ورثہ عظیم ہے جسکی حفاظت ہر ایک کشمیر ی کے لئے واجب ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان پرندوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہے تو ہم ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔انہوں نے نوجوان نسل سے نصیحت کی کہ وہ ان پرندوں کا شکار کرنے کے بجائے آپنے بزرگوں سے ان سے متعلق ماضی کی کہانیاں سنیں ۔مذکورہ شہری کے مطابق آج کل پرندوں کا شکار تجارتی مقاصد کیلئے کیا جاتا ہے جو کہ اخلاقی اور انسانی طور ناقابل معاف گناہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں برسہا برس سے مہاجر پرندے کشمیر آتے ہیں جو اکتوبر مہینے سے لیکر اپریل تک یہاں رہتے ہیں۔ ادھر اس حوالے سے جب سی این ایس نے محکمہ وائلڈ لائف کے اعلیٰ ذمہ دار سے رابطہ کیا تو انہوںنے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ شام ہوتے ہی بعض مقامات پر ان مہمان پرندوں کو شکار کرنے کی شکایت موصول ہوتی ہے تاہم انہوںنے کہا کہ محکمہ کے پاس شکاریوں کو قابو میں کرنے کیلئے ایک تو پہلے ہی افراد قوت کا سامنا ہے جبکہ شام کے وقت محکمہ کے اہلکار بے ساز وسامان ہونے کی وجہ سے شکار کرنے والوں کو رنگے ہاتھوں میں پکڑنے میں اپنی جانوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔