سرینگر:ایک طرف سرکارزعفران مشن کو فروغ دینے کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے اوردوسری جانب زعفران اُگانے سے درکار اراضی ہرسال گھٹ رہی ہے 1996سے2010تک محکمہ مال نے جواعدادشمار سامنے لائے ان کے مطابق25سو ہیکٹئر زعفران کی اراضی غیرقانونی طور پراستعمال میں لائی گئی، جبکہ 2010سے 2021کے 31اکتوبرتک محکمہ ما ل کی جانب سے غیرقانونی طور پرزعفران اراضی کوغیرقان نونی طور پراستعمال میں لانے کے سلسلے میں ریکارڈفراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہاہے ڈائریکٹرایگری کلچر نے اس بات کی تصدیق کی کہ محکمہ زراعت کے پاس مصدقہ کوئی ریکارڈنہیں کتنے ہیکٹئراراضی پرزعفران اُگایاجارہاہے اور پچھلے دس برسوں کے دوران کتنے ہیکٹئراراضی غیرقانونی طور پر استعمال میں لائی گئی ہے محکمہ مال اس سلسلے میں ابھی تک ریکارڈفراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے ۔اے پی آ ئی نیوز ڈیسک کے مطابق گولڈن سپلائز سے دنیابھرمیں مشہورکشمیری زعفران کوفروغ دینے کے سلسلے میں مرکزی سرکار اور جموںو کشمیرانتظامیہ نے بڑے پیمانے پراقدامات اٹھانے کافیصلہ کیاہے اور اس ضمن میں کئی ایک پروجیکٹ ہاتھ میں بھی لئے گئے تاہم جموں وکشمیر سرکار کواس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہے کہ جنوبی کشمیر کے پانپورعلاقے میں کتنے ہیکٹئراراضی پراس وقت زعفران اُگائی جارہی ہے ۔1996سے لیکر2010 تک جوریکارڈدستیاب ہے اس کے مطابق 22سو ہیکٹئر اراضی زعفران کی تجارتی مراکز تعمیر کرنے رہائشی کالنیوں میں تبدیل کرنے کے لئے استعمال میںلائی گئی اور اسطرح 60% زعفران کی اراضی ختم ہوگئی ہے اور 40%اس وقت زعفران اُگانے کے لئے دستیاب ہے ۔اس بات کادعویٰ کیاجارہاہے کہ زعفران کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہواہے تاہم زعفران اُگانے والوں کے ایک وفد نے خبر رساں ادارے اے پی آئی کے ساتھ گفتگوکے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ پچھلے دس برسوں سے زعفران کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے اور غیرقانونی طور پر زعفران کی اراضی تعمیراتی سرگرمیوں کے لئے استعما ل میں لائی جارہی ہے زعفران اُگانے والے کسانوں نے اس بات کابھی انکشاف کیاہے کہ چند کنبے جوسرکار سے مرعات حاصل کرنے میں پیش پیش رہتے ہے زعفران اُگانے اور اس سے بین الاقوامی بازار دستیاب رکھنے کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں خودسرکار کواس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ فی الوقت کتنے ہیکٹئراراضی پرزعفران اُگائی جارہی ہے ۔ڈائریکٹرایگری کلچر نے بھی خبررساں ادارے کے ساتھ گفتگوکے دوران اس بات کاانکشاف کیاکہ انہوںنے بھی محکمہ مال سے ریکارڈ مانگا تھا کہ کتنے ہیکٹئراراضی پرزعفران اُگائی جارہی ہے اور پچھلے 15برسوں کے دوران کتنی اراضی غیرقانونی طور پر دوسرے اغراض مقاصدکے لئے استعمال میں لائی گئی ہے تاہم محکمہ مال کی جانب سے ابھی تک اس بارے میں کوئی بھی ریکارڈفراہم نہیں کیاگیا ۔باوثوق ذررائع کے مطابق زعفران کی اراضی تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے اور اس ضمن میں سرکار کی جانب سے اس اراضی کوبچانے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں اور زعفران اُگانے والوں کے مطابق جس طرح آبی اول کی اراضی تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے زعفران کی اراضی بھی اسی طرح کم ہوتی جارہی ہے اور صورتحال پرقابونہ پایاگیاتوآنے والے 25برسوں کے بعدزعفران اُگانے کے بارے میں کتابوں میں کہانیاں پڑنے کوملے گی اور وادی کشمیرکے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوجائینگے ۔