سرینگر//ارشید مجید//ریاستی حکومت کی جانب سے چند برس قبل بتہ مالو جنرل بس اسٹینڈ کی پارمپورہ منتقلی کے نتیجے میں یہاں ہزاروں دوکاندار کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ ادھر مقامی تجارتی انجمن کا دعویٰ ہے کہ سرکار کے اس اقدام سے 40ہزار کے قریب نوجوان روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔روزنامہ نگران کیساتھ بات کرتے ہوئے بتہ مالو جنرل بس اسٹینڈ میں قائم متعدد دوکانداروں نے بتایا کہ جنرل بس اسٹینڈ کی پارمپورہ منتقلی سے اُن کے روزگار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کئی برس گذرنے کے باوجود دوکانداروں سے متعلق بازآبادکاری کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ عامر احمد نامی نوجوان جو بتہ مالواڈہ میں کئی برسوں سے ہوٹل چلارہے ہیں، نے روزنامہ نگران کیساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ چند برس قبل ریاستی سرکار کی جانب سے بس اڈہ کو پارمپورہ علاقہ میں منتقل کیا گیا جس کے یہاں کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عامر کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جن سنگین حالات کا مقابلہ انہیں کرنا پڑا اُس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ عامر کے بقول بس منتقلی کے اقدام سے قبل اُن کے ہوٹل میں گیارہ ملازم کام کرتے تھے اور روزانہ مسافروں کے بھاری رش کے نتیجے میں وہ 400کھانے کے پلیٹ فروخت کرتا تھا، تاہم بس اڈہ کی منتقلی کے بعد اُن کا بزنس انتہائی متاثر ہوا جس کے نتیجے میں وہ اب محض 30پلیٹ ہی فروخت کرپاتا ہے۔ عامر نے مزید بتایا کہ سرکار کے اس اقدام کے نتیجے میں بس اڈہ میں ہورہی تجارتی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی جس کے نتیجے میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار سے محروم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پہل میں نہ صرف اپنا روزگار کماتا تھا بلکہ میری دوکان پر مزید گیارہ نوجوان اپنی روزی روٹی کماتے تھے تاہم اب محض ایک سیلز مین بھی میرے کندھوں پر بھاری پڑرہا ہے کیوں کہ بس اڈہ اب قبرستان جیسی خاموشی کا منظر بیان کررہا ہے۔ ادھر بس اڈہ میں قائم چند ریڈی میڈ دوکانداروں نے نگران کو بتایا کہ ماند پڑچکی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے اُن کے اہل و عیال کا پیٹ مشکل سے پالنا پڑتا ہے۔ دوکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور وہ اپنے بال بچوں کی اسکولی فیس ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ادھر بتہ مالو ٹریڈرس ایسو سی ایشن کے صدر ابرارخان کیساتھ جب نگران نے رابطہ کیا تو انہوں نے بس منتقلی کے فیصلہ کو عجلت پسندی سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا جس وقت ریاستی سرکار نے بتہ مالو بس اڈہ کو پارمپورہ علاقہ میں منتقل کیا تو اس سے متعلق یہاں تجارتی انجمنوں کیساتھ کوئی بھی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا۔ ابرار خان کے مطابق سرکار کے اس فیصلہ نے یہاں کی تجارت پر کاری ضرب لگائی اور 40ہزار کے قریب نوجوانوں کو روزگار سے محروم کیا۔ انہوں نے کہا کہ بتہ مالو بس اڈہ کے ارد گرد ایسے 5500ہزار دوکاندار ہیں جن کا روزگار گزشتہ پانچ برسوں سے ماند ہے۔ ایک سوال کے جواب میں خان کا کہنا تھا کہ بس منتقلی کے موقعہ پراُسوقت کی حکومت نے اس بات کا یقین دلایا کہ متاثرہ تجارت پیشہ افراد کو بازآبادکاری کے دائرے میں لایا جائیگا تاہم پانچ سال سے زائد کاعرصہ گذرنے کے بعد بھی بازآبادکاری پالیسی کا کہیں نام و نشان موجود نہیں ہے۔ انہوں نے سرکار نے مطالبہ کیا کہ وہ دوکانداروں کیساتھ کئے گئے وعدوں کا جلد ایفا کرے اورمتعلقین کے روزگار کو تحفظ فراہم کرنے میں جتنے بھی اقدامات لازمی ہوں، وہ فوراً سے پیشتر اُٹھائے۔