سرینگر:صدرِ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس حد بندی کمیشن کی تجاویز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔The Wireکیلئے سرکردہ صحافی کرن تھاپر کیساتھ ایک انٹرویو میں صدرِ نیشنل کانفرنس نے کہاکہ حد بندی کی مشق اور جموں کوکشمیر سے زیادہ نشستیں دینے کا فیصلہ ’’آئین کی خلاف ورزی ہے کیساتھ ساتھ سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات کی بھی سریحاًخلاف ورزی ہے۔‘‘انہوںنے کہاکہ مرکز کے رویہ سے کشمیرکے لوگ خود کو ’’نظرانداز اور پشت بہ دیوار ‘‘ محسوس کررہے ہیں۔ لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے انہیں دور دھکیل دیا جا رہا ہے۔ صورتحال آتش فشاں کی مانند ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اگر آتش فشاں پھٹ گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ انہوں نے کہا کہ یہ قوم کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور کچھ بھی نہیں بچے گا۔انہوں نے کہاکہ میںنہیںچاہتا کہ ایسا ہو لیکن کشمیر کے اندر پائی جارہی ناراضگی اور غصے کو نظرانداز بھی نہیںکیا جاسکتا۔ انہوں نے پُرنم آنکھوں سے کہاکہ جموںوکشمیرکے لوگ مختلف قسم کے مصائب و مشکلات میں مبتلا ہیں، لوگ اقتصادی بحالی کے شکار ہے، لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں، ذرائع ابلاغ پر پابندی عائد کی گئی ہے، نت نئے قوانین کے ذریعے لوگوں کو بند کیا جاتا ہے اور دباکے رکھا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر ریاست کی بحالی سے قبل انتخابات کرائے گئے تو نیشنل کانفرنس اس میں حصہ لے گی اور اس بات کر برملا اظہار کیا کہ نیشنل کانفرنس الیکشن میں فاتح ہوگی۔انہوں نے کہاکہ وہ (بی جے پی) دھاندلی کے بغیر کبھی بھی انتخابات نہیں جیت سکیں گے، لوگ اس پارٹی سے نفرت کرتے ہیں اور یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی پراکسیاں کون کون سی جماعت ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ نیشنل کانفرنس اراکین نے حد بندی کمیشن کی میٹنگ میں شرکت کی کیونکہ ہم جاننا چاہتے تھے کہ کمیشن کیا کر رہا ہے۔ ’’اگر ہم وہاں نہیں گئے ہوتے تو یہ بات منظر عام پر نہیں آتی کہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ ہم نے کمیشن کی چیئرپرسن کو دوٹوک الفاظ میں کہا کہ آپ کا کمیشن سپریم کورٹ ہدایت کی خلاف ورزی ہے اور چیئرپرسن نے بھی اس بات کی حامی بھری اور کہا کہ اگر سپریم کورٹ کی طرف سے ہمیں کوئی ہدایت ملتی ہے تو ہم وہی کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ ہم نے کمیشن کے باہر اور کمیشن کے اندر بھی یہی بات دہرائی کہ جموں وکشمیر کی حدبندی غیر آئینی ہے اورعدالت عظمیٰ کے احکامات کیخلاف ورزی ہے۔اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ نیشنل کانفرنس 5 اگست 2019 کی تبدیلیوں کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہم نے عدالت میں ان فیصلوں کو چیلنج کیا ہے لیکن معلوم نہیں سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کیوں نہیں کر رہی ہے۔اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ محبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی سجاد غنی لون کی طرح پی اے جی ڈی سے الگ ہوسکتی ہے، کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’لون کو بی جے پی نے الگ کرنے کے لئے چال چلی تھی، اب پی ڈی پی کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے۔ مرحوم مفتی سعید کی عمر رسیدہ اہلیہ کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے اس عمر میں پوچھ گچھ کے لئے بلایا ہے۔ محبوبہ (مفتی) کے بھائی کو بھی طلب کیا جا رہا ہے۔ یہ دباؤ کے ہتھکنڈے ہیں لیکن محبوبہ ہار نہیں مانیں گی، مرکز پی اے جی ڈی کو تقسیم کرنا چاہتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ ہم متحد ہیں۔کشمیر خصوصاً سرینگر میں تشدد میں اضافہ کے بارے میںپوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ یہ مرکزی حکومت کی پالیسیوں کانتیجہ ہے اور یہ اس بات کا ردعمل ہے جو ملک کے باقی حصوں میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔اس سوال کہ نریندر مودی کے ہندوستان میں مسلمان ہونا کیسا لگتا ہے ؟ کا جواب دیتے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’’یہ انتہائی خوفناک ‘‘ احساس ہے۔اپوزیشن اتحاد کے فقدان کے بارے میں بات کرتے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بیان کیاکہ کس طرح ’’انااور ہٹ دھرمی‘‘ ترنمول کانگریس اور کانگریس جیسی پارٹیوں کو تقسیم کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ممتا بنرجی کو اس وقت بہت تکلیف ہوئی جو وہ بھاجپا کیخلاف ریاستی اسمبلی انتخابات میں تنہا لڑ رہی تھی اور کانگریس نے ان کی مدد نہیں کی۔ انہوں نے کہاکہ سیکولر جماعتوں میں اتحاد نہیں ہوگا تو ملک نہیں بچے گا۔