تین سال میں بورڈ لگا تو تعمیر کیلئے دہائیاں درکار ہون
پلوامہ (نمائندہ خصوصی)
جنوبی کشمیر کے شوپیان اور پلوامہ اضلاع میں زچگی کیلئے مخصوص اسپتال کی تعمیر کیلئے زمین کو نشاندہی کئے ہوئے تین سال گذر چکے ہیں تاہم ایک بورڈ لگانے کے سوا کوئی کام نہیں کیا جاسکا ہے۔مقامی لوگوں کو،جنہیں اس اسپتال سے انکی خواتین کو راحت ملنے کی ا±مید تھی،لگتا ہے کہ سرکار اس منصوبے کو فراموش کرچکی ہے اور ظاہر ہے ا±ن میں مایوسی ہے۔
پلوامہ اور شوپیان کے اضلاع وسیع علاقے پر محیط ہیں جہاں کی آبادی، 2011 کی مردم شماری کے مطابق ،پندرہ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں سے نصف کے قریب خواتین ہیں۔حالانکہ دونوں اضلاع میں کئی چھوٹے بڑے اسپتال قائم تو ہیں تاہم وادی کے دیگر علاقوں کی ہی طرح یہاں امراضِ خواتین باالخصوص زچگی کیلئے خاص کوئی سہولت نہیں ہے جسکی وجہ سے ضرورت پڑنے پر حاملہ خواتین کو سرینگر کے لل دید اسپتال کی طرف بھیجا جاتا ہے۔پلوامہ اور شوپیاں کے ضلع اسپتالوں میں ذرائع نے بتایا کہ یہاں سے تقریباََ روز ہی کئی حاملہ خواتین کو لل دید منتقل کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات یہ منتقلی زچہ بچہ کیلئے جان لیوا تک ثابت ہوتی ہے۔چناچہ مقامی لوگوں کے بار بار مطالبہ کرنے پر حکومت نے دونوں اضلاع کیلئے زچگی کا مخصوص اسپتال قائم کرنے کے وعدے کئے اور باالآخر تین سال قبل سو بستروں والے زچگی اسپتال کیلئے پلوامہ قصبہ کے قریب ایک سو بارہ کنال زمین کی نشاندہی کی گئی۔یہاں کے ایک بزرگ شہری محمد جبار کہتے ہیں ”یہ ایک خواب پورا ہونے کے جیسا تھا کیونکہ ہمارے بہن بیٹیوں کو مشکل وقت میں سرینگر منتقل کرنے کی مجبوری انتہائی تکلیف دہ ہے“۔انہوں نے کہا کہ اسپتال منظور تو ہوا تاہم جگہ کو لیکر تنازعہ کھڑا ہوگیا تاہم بعدازاں سِرنو میں ایک ایسی جگہ چ±نی گئی کہ جو دونوں اضلاع کے عوام کیلئے یکساں طور بہ آسانی پہنچ میں تھی۔انہیں تاہم افسوس ہے کہ طویل تین سال گذرجانے کے باوجود بھی اسپتال کی تعمیر شروع نہیں کی گئی۔
شوپیاں کے ایک شہری بشیر احمد مانتو نے کہا ”ہمارے یہاں زچگی اسپتال کی دستیابی ایک فوری ضرورت ہے،ہمیں سرینگر جانا پڑتا ہے اور پھر آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ لل دید اسپتال میں کتنا رش ہوتا ہے،اگر ہمیں مقامی طور سہولت دستیاب ہوتی تو مریضوں کے ساتھ ساتھ تیمارداروں کیلئے بھی آسانی ہوتی جنہیں لل دید اسپتال میں دھکے کھانا پڑتے ہیں“۔ انہوں نے کہا ”ہم نے کئی بار التوا میں پڑے پروجیکٹ کے حوالے سے افسروں سے رجوع کیا لیکن کوئی کچھ نہیں کہتا ہے،اللہ جانے زمین کی نشاندہی کے باوجود بھی اس پروجیکٹ پر کام شروع کیوں نہیں ہوا“۔
ضلع اسپتال پلوامہ کے ایک ڈاکٹر نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا ”مجوزہ اسپتال ایک طرف پلوامہ اور شوپیاں اضلاع کیلئے بڑا راحت رساں ثابت ہوتا تو دوسری جانب لل دید اسپتال کا بوجھ بھی بڑی حد تک کم ہوچکا ہوتا“۔خود لل دید اسپتال کی ایک سینئر ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پوری وادی میں زچگی کے اسپتال بن جاتے تو لل دید پر بوجھ کم ہوتا اور یہاں زچگی کے ساتھ ساتھ تحقیق و تدریس کے کام میں بہتری ا?سکتی تھی جو اس ”ٹیریشری کئیر“ اسپتال کے قیام کا اصل مقصد ہے۔
محکمہ صحت کے ایک افسر نے بتایا کہ انہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ”ایک بار جب حکومت کہیں اسپتال بناتی ہے تو اسکی تکمیل پر اسے ہمارے محکمہ کو سونپا جاتا ہے۔مجوزہ اسپتالوں کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن اگر سرینگر سے باہر کے اضلاع میں خصوصی اسپتال قائم ہوتے ہیں تو یہ یقیناََ ایک خوش آئیندہ بات ہے۔