سرینگر//پیر کو جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مادری زبان کا عالمی دن منایا گیا۔ اس موقعہ پر اگر چہ ادبی تنظیموں اور سرکاری اور نجی ادروں کی طرف سے تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر کے ہر گھر میں مادری زبان ناپید ہوتی جارہی ہے اور اس کے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے۔ سی این ایس کے مطابق دنیا بھر میں 21 فروری کا دن ہر سال مادری زبان کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے۔نومبر1999کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا اور اِسی ادارے کے زیر اہتمام سال2000 سے اِس روز دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ‘مادری زبان بدن میں لہو جیسی اہمیت رکھتی ہے جس میں سوچیں جنم لیتی اور پنپتی ہیں’، یہ ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتاہے۔ زبان انسان کی تمام پہلی‘ موجودہ نسلوں کا ایک قیمتی سرمایہ اور اہم میراث ہے۔جموں وکشمیر خاص کر اگر وادی کی بات کی جائے تو یہاں ہر گھرسے لیکر تعلیمی نظام میں انگریزی زبان زیادہ حاوی ہے۔ کشمیریوں کی مادری زبان ناپید ہوگئی ہے جبکہ دیگر مادری زبانیںناپید ہونے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔کشمیر زبان اب صرف بات چیت تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے اس کے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے۔ اگرچہ کشمیر کے اسکولوں میں کشمیری زبان کا پڑھنا تقریباً لازمی قرار دیا گیا ہے، تاہم باوجود اس کے کوئی دورس نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں۔ آ ج تک جتنی بھی حکو متیں آئی ہیں انہوں نے کشمیری زبان کونظر انداز کیا۔ دریں اثنا پیر کو مادری زبان کے عالمی دن پر کئی جگہوں پر تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور کئی ادبی تنظیموں اور فنکاروں کی جانب سے سمینار منعقد کیے گیے۔حقانی میموریل ٹرسٹ جموں و کشمیر نے مادری زبان کے بین الاقوامی دن پر ایک تقریب منعقد کی جس میں مقررین نے مادری زبان کی اہمیت اور اسکے تحفظ کرنے کی تاکید کی۔ ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری بشیر احمد ڈار نے کہا کہ صوفیائے کرام خصوصاً صوفی شعرا و ادبا نے مادری زبان یعنی کشمیری زبان کو پروان چڑھانے اور تحفظ دینے میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ہی اولین طور پر کشمیری زبان کو تحریری و ترسیلی صورت بخشی ہے اس وقت انتہائی لازمی ہے کہ ہمیں اپنیبچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینی چاہئے،کیونکہ بچہ مادری زبان کو آسانی سے سمجھ سکتاہے۔ انھوں نے کہاکہ اگرہم اپنی مادری زبان کی حفاظت کرتے ہیں اوراس کو فروغ دیتے ہیں تو اس سے ہمارے لسانی وتہذیبی سرمایے کابھی تحفظ ہوگا۔زبان ایک ایساوسیلہ ہے جولوگوں کو متحدرکھنے میں اہم کردار عطا کرتا ہے۔مادری زبان آنکھ کی طرح ہے اوردوسری زبانیں چشمے کی مانند ہیں، اگر آنکھ میں بینائی نہیں ہوگی، توچشمے کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ مادری زبان کے تحفظ کو ایک اہم فریضہ سمجھناچاہئے اوراسے ایک تحریک اورمشن کے طورپر فروغ دیناچاہئے۔ ہمیں ہر حال میں اپنی لسانی وراثت کی حفاظت کرنی چاہیے۔کشمیری زبان ہر لحاظ سے ایک ثروت مند زبان ہے اس میں بات کرنے سے کسی بھی صورت میں شرم محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔یہ ہماری قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ اپنی نئی نسل کواس زبان سے بخوبی واقف کرایں اور اس کو ہمہ گیر صورت میں استعمال کرنے کی تربیت کریں۔ہائیر سیکنڈری سکول گنڈ حسی بٹ میں "عالمی یومِ مادری زبان” کا انعقاد۔ سرینگر کے مضافات میں "عالمی یومِ مادرے زبان” کا انعقاد۔ کو سرینگر کے مضافات میں واقع گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول گنڈ حسی بھٹ میں "عالمی یومِ مادری زبان” کے حوالے سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مقررین نے مادری زبان کی اہمیت اور اس کے بڑھتے رجحان پر مدلل روشنی ڈالی طلباء نے بھی اس موضوع کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مقررین میں سے سید تنویر اندرابی، آسیہ شفیع اور سکول کے پرنسپل میر شبیر احمد نے مادری زبان کی حفاظت استعمال اور روزمرہ زندگی میں اسکی اہمیت پر زور دے کر بچوں کو آگاہ کیا۔ طلباء میں سے زینب راہی اور فاطمہ جان نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔گلشن کلچرل فورم کشمیر کی جانب سے بدرن ماگام میں مادری زبان کے عالمی دن کے موقعے پر تقریب منعقد۔ مضمون نویسی اور کوئز مقابلہ تقریب کی اہم نشستیںآج یہاں بدرن ماگام میں گلشن کلچرل فورم کشمیر کے اہتمام سے مادری زبان کے عالمی دن کے موقعے پر ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جہاں پر مادری زبان کی اہمیت، ضرورت اور ترویج کے حوالے سے تعلیمی ماہروں اور مقررینوں نے وضاحت کی۔ تقریب کی صدارت ماہر تعلیم اور فورم کے صدر سید بشیر کوثر نینے کی۔ معروف ادیب شاعر اور کلچرل ایکٹویسٹ گلشن بدرنی نے قلیدی خطبہ پیش کیا۔ تقریب میں مقامی طلباء اور طالبات کی خاصی تعداد موجود تھی۔ اس موقعے پر مضمون نویسی اور ذہنی آزمایش(کوئز) مقابلہ بھی منعقد ہوا۔ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں کو اعزازات سے نوازا گیا۔ مضمون نویسی مقابلے میں بالترتیب مہک اشرف ، عالیہ منظور اور قرت العین نے پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ کوئز مقابلے میں فوزیہ نبی ، ناہِلا بلال اور تبسْم اشرف نے پہلی دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی۔ مزید کئی امتیازی بچوں کو حوصلہ افزائی کے طور پر کشمیری کتابوں کے سیٹ پیش کئے گئے۔ اس طرح بچوں کو کشمیری زبان کی طرف راغب کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ فورم کی جانب سیاس طرح کیتعلیمی مقابلے آیندہ بھی جاری رہیں گے۔ اس موقعے پر جن دیگر لوگوں نے اپنی مادری زبان کشمیری کی عظمت و افادیت پر بات کی ان میں خورشید خاموش، لطیف نیازی، مقبول شیدا ، ڈاکٹر محمد ادریس اور نیوز ایٹین اردو کے نمایندہ منیر حسین ہرا بھی شامل ہیں۔تقریب کے دوران مقررین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ نویں اوردسویں جماعت کے لئے کشمیری کو لازمی سبجیکٹ قرار دیں۔ اور لوگوں کو زبان کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار نہ ہونے کی تلقین کی۔