آخر میں کھلا آ کر یہ راز کہانی کا
انجام سے ہوتا ہے آغاز کہانی کا
اس عہدِ تصنع کی ہر بات ہے پردوں میں
عنواں نہیں ہوتا اب غماز کہانی کا
تکرار بناتی ہے اب جھوٹ کو سچائی
تشہیر بدلتی ہے انداز کہانی کا
ابن آدم خطاؤں کا مجموعہ ہے۔ انسان سے قدم قدم پر غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ کوئی بھی بشر خطا و نسیان سے مبرا نہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "کلُّ بني آدم خَطَّاءٌ, وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون”.یعنی، ” ہر انسان خطا کرنے والا ہے اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کرے”.انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا؛ کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مولا کی طرف سے مطلوبہ امور کو انجام نہیں دیتا اور اس کی منع کردہ اشیا کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اس نے یہ بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔ ابن آدم کے لیل و نھار معصیت اور گناہوں میں گزر جاتے ہیں، ہر لمحہ اللہ کی بندگی کرنے والا بھی خطا سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ خطا دل سے بھی سرزد ہوتے ہیں، ہمارے جوارح سے بھی سرزد ہوتے ہیں اور بالخصوص ہماری لسان سے۔ بعض گناہ اور غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق فرد واحد سے ہوتا ہے اور بعض خطا ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنا اثر اجتماعیت پر چھوڑ جاتے ہیں۔ بعض گناہوں کا تعلق خلوت سے ہوتا ہے اور بعض گناہوں کا تعلق ہماری جلوت سے ہوتا ہے۔ بنی آدم کو ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ اپنے نفس کو سرکشی سے محفوظ رکھیں۔کیونکہ اللہ رب العباد نے ہمیں عقل و شعور سے نوازا ہے،ہم اشیاء و اعمال میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گناہ سرزد ہوجانے کے بعد بنی آدم پر بعض احکام لاگو ہوجاتے ہیں تاکہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو اس کے شر سے محفوظ رکھ سکے۔ اولاً اپنے فعل پر شرمندہ ہونا ثانیاً اپنے فعل کو دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرنا،ثالثاً معاصی کو قطری ترک کرنا، رابعاً لسان و قلب سے رب العزت سے معافی مانگنا اور اگر کسی خطا کا تعلق مخلوق سے ہے تو ان سے معافی طلب کرے اور ان کے حق میں رحمت و برکت کی دعا کیا کریں۔
معاف کرنا اللہ کی عظیم سنت ہے۔ اللہ عزوجل کی صفات علیا میں رحیم، کریم، تواب، غفور جیسی عظیم صفات بھی شامل ہے جس سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ اللہ رب العباد بار بار معاف کرنے والا، کثرت سے معاف کرنے والا، بڑے بڑے گناہوں کو بخشنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "لَمَّا خَلَقَ اﷲُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ وَهُوَ يَکْتُبُ عَلَی نَفْسِهِ وَهُوَ وَضْعٌ عِنْدَهُ عَلَی الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي”، یعنی”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنی ذات کے متعلق لکھتا ہے جو اُس کے پاس عرش پر رکھی ہوئی ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے”.(صحیح بخاری و صحیح مسلم) رب العباد نے اپنے نفس مطہرہ پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور مخلوق کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کریں۔ اللہ رب العزت نے سو قتل کرنے والے بنی اسرائیلی قاتل کی بھی مغفرت فرمادی کیونکہ اس نے مرنے سے پہلے سچی توبہ کی تھی، اللہ رب العزت نے عظیم گناہگار خاتون کی مغفرت اس لئے فرمادی کیونکہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلا دی۔ اللہ رب العزت نے عہد موسوی میں موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایک گناہگار کا جنازہ خود پڑھا اور اعلان فرمایا کہ جو اصحاب کبائر اس کے جنازے میں شامل ہو جائیں گے اللہ ان سب کی مغفرت فرما دے گاگا، وجہ بس یہ کہ اللہ کو انکی طلب معافی نے بہت خوش کردیا۔ سیدنا ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ نے جب رسول کریمﷺ سے مطالبہ کیا کہ مجھے رجم کیا جائے کیونکہ مجھ سے فعل بد سرزد ہوا ہے۔ رجم کرتے کرتے نبوی ﷺ لسان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے کہ اگر اسکی توبہ پورے مدینہ میں تقسیم کی جا، اللہ سب کی مغفرت فرما دے گا۔اللہ رب العزت رات کے نافرمانوں کے لئے دن کے وقت دست مقدس توبہ کے لئے پھیلاتا ہے اور دن کے سرکشوں کے لئے اللہ رب العباد رات کے وقت توبہ کے لئے دست مقدس پھیلاتا ہے۔ اللہ نصف اللیل اور ثلت اللیل کے وقت اعلان مغفرت کی صدا بلند کرتا ہے۔ خالق کائنات توبہ کرنے والوں سے گناہوں کے باوجود محبت کرتا ہے اور انکی وجہ سے اپنے عذاب کو مؤخر کردیتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے مخصوص اعمال کو بھی باعث مغفرت قرار دیا ہے مثلاً نماز اشراق ، حج و عمرہ، نفلی روزے، سخاوت و ہمدردی وغیرہ۔
مخلوق کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مخلوق کے سامنے اپنے گناہوں کو رکھو گے تو رسوائی ملے گی، ذلت ملے گی، طعنے ملیں گے،برے القابات سے آپکو نوازا جاۓ گا۔ آپ کتنے بھی صالح بن جائیں مخلوق کی نظر میں آپ حقیر ہی قرار پائیں گے۔آپ کتنے ہی بڑے عابد کیوں نہ ہو، آپ کو فاسقین میں ہی شمار کیا جائے گا، آپ کتنے ہی اعلی درجہ کے زاہد بھی کیوں نہ ہو، آپ کو حریص ہی سمجھا جائے گا۔تربیت نبوی ﷺ کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے سے روکا گیا ہے۔ یہ اس لئے تاکہ آپ کی عزت نفس معاشرے میں محفوظ رہے۔ آپکے ظاہر و باطن کا حال رب کائنات جانتا ہے، سمجھتا ہے۔۔۔ اللہ کو کسی اور نگران کی ضرورت نہیں۔آپ کیوں اپنے گناہوں پر خود لوگوں کو شاہد بنا رہے ہیں، یہ عظیم نادانی ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا، ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول: يا فلان، عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه”.یعنی، "میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے۔ اور اعلانیہ گناہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی شخص رات کو کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کی صبح اس حال میں ہو کہ الله نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا ہو اور وہ (کسی سے) کہے کہ اے فلاں میں نے کل رات یہ یہ کام کیا۔ جب کہ اس کی رات اس حال میں گزری تھی کہ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا لیکن صبح ہوتے ہی وہ خود اپنے بارے میں اللہ کے پردے کو کھولنے لگا”.(متفق علیہ)
انسانی فطرت ہے کہ اپنا دفاع کرنے میں اور دوسرے کی عزت کا جنازہ نکالنے میں اسے مٹھاس ملتی ہے۔لیکن انسان خود اپنے اعداء کو موقع فراہم کرتا ہے کہ میری تنقید کرو۔بعض افراد تو فخر سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "میں اس گناہ میں مبتلا تھا، پھر رب نے مجھے توفیق دی، پھر میں نے توبہ کی”.یہ جملہ کسی صاحب عقل کا جملہ نہیں ہوسکتا۔ ان جیسے الفاظ سے آپ اپنی شخصیت کو خود سماج میں معیوب بنا دیتے ہیں۔یہ تکلف نہیں جہالت ہے۔۔۔! اپنے کردار کی حفاظت آپ کو خود کرنی ہے اور وہ اس طرح کہ اپنے گناہوں کو بھی فقط اپنے اور رب کے درمیان رکھو۔ جب تک اپنے راز کی حفاظت کرو گے، راز آپ کا غلام ہے لیکن اگر غلطی سے بھی آپ نے اپنے راز کو خود افشاء کیا، آپ تا عمر راز کے غلام بن جائیں گے۔ جب آپ اپنے عیب کی حفاظت خود نہ کرسکے، دوسروں سے آپ کیسے اس بات کی امید رکھ سکتے ہیں۔ بالخصوص عصر حاضر میں سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے وقت آپ اپنے پوشیدہ اسرار بھی کھول کھول کے بیان کردیتے ہیں۔ اس نے نہ صرف آپ اپنی عزت کو خود سربازار نیلام کرتے ہیں بلکہ اس سے blackmailing جیسے جرائم بھی سماج میں پروان چڑھ جاتے ہیں۔
Your visions will become clear only when you can look into your own heart. Who looks outside, dreams; who looks inside, awakes.
گزارش ہے نوجوان ملت سے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی آپ کو رازدار نہیں۔ اپنے اسرار کی حفاظت کرنے والے بن جاؤ۔ آپکی عزت آپکے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے کردار کی حفاظت فرما۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔