مصیبت و آلام سے لڑنا بندہ حقیقی کا کام ہے
تحریر:-بلال احمد پرے
ﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر اس سے بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ہے ۔ زندگی بذات خود ایک بہتریں انمول نعمت ہے۔ زندگی مالکِ حقیقی کی دی ہوئی ایک امانت ہے – یہ ہماری اپنی ذاتی ملکیت تو نہیں کہ جب چاہئے، جہاں چاہئے صرف کریں بلکہ اس سے اپنے مقررہ وقت پر رب الزوجلال کو واپس لوٹا دینا ہے اور اس امانت میں ذرا بھر خیانت کی گنجائش موجود نہیں ۔ عین اسی طرح جس طرح ایک مقروض کو اپنا قرض ادا کرنا پڑتا ہے –
زندگی موت و حیات کے بیچ اُس کشمکش کا نام ہے جس سے طِفل، شباب اور بزرگی جیسے تین اہم بڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مراحل کو طے کرنے میں صحت و مرض، راحت و تکلیف، خوشی و غم، عروج و زوال، ثروت و غربت، خیر و شر جیسے مختلف موڑوں سے گزرنا پڑتا ہیں۔ زندگی بخشنے والے رب نے زندگی کو وجود میں لانے سے پہلے ہی اس کی تقدیر تحریر فرمائی ہے ۔ اِنسان ایک اعتبار سے مختار اور دوسرے اعتبار سے مجبور ہے-
آج کل آئے روز زندگی کا خاتمہ کرنا فیشن بن چکا ہے – انسان بِلا خوف و خطر اپنے کھلے دشمن شیطان کی تعمیل پر رقص کرتا ہوا نظر آرہا ہے – نہ خالق کائنات کا خوف نہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، نہ قرآن سے تعلق نہ نماز سے مدد طلب- بلکہ بڑی بے دردی کے ساتھ زندگی کو پھول سمجھ کر مرجھایا جا رہا ہے۔ کہیں زہر کھا کر خاموش کیا جاتا ہے، کہیں تیل چھڑک کر آگ سے جھلس دیا جاتا ہے ، کہیں پھانسی کا پھندہ گردن میں ڈال کر لٹکایا جاتا ہے ، کہیں تیز ترین آلے سے اپنی حسین و جمیل شکل و صورت کو بگاڑ کے رکھ دیا جاتا ہے، کہیں بے خوف و خطر ہو کر دریا پر بنے پُلوں سے چھلانگ مار کر غرقِ آب کیا جاتا ہے – غرض جاہ جاہ چمن کے مختلف گوشوں میں رنگین پھولوں کو اس حسین و جمیل باغ سے جُدا کیا جاتا ہے ۔
خودکشی کے اسباب
خودکشی یعنی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی جان لینا ایک اخلاقی اور سماجی برائی ہے جو صرف ایک بزدلانہ حرکت ہے – اسلام نے اس سے حرام قرار دیا ہے – وادئ کشمیر کی بات کی جائے تو یہاں خودکشی کا سلسلہ اپنے بام عروج پر ہیں – قومی کرائم ریکارڈ بیوریو (National Crime Records Bureau) کے اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سنہ ۲۰۱۷ء میں خودکشی کے 287 واقعات رونما ہوئے ہیں جب کہ سنہ ۲۰۱۸ء میں 330 اور سنہ ۲۰۱۹ء میں 284 واقعات پائے گئے ہیں – اور اب یہ واقعات اڑھائی فی صدی سے تین فی صدی بڑھ چکے ہیں – اس طرح کی تشویشناک خبریں آئے روز اخباروں میں دیکھنے کو ملتی ہیں-
۶ جون ۲۰۲۱ء سے کئیں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں – شہر خاص میں واقع قمرواری کا سیمنٹ کدل ایسے بُرے افعال سے کافی خبروں میں رہا- جہاں سے کئیں افراد نے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو پانی میں ڈوبا دیا- آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ لوگ معمولی سی پریشانی کو برداشت کئے بغیر خودکشی جیسے سنگین گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں- مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں کے اندر اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں –
ایک تحقیق کے مطابق شہری اور دیہی علاقوں میں اُناسی (79) فی صد آبادی ذہنی تناؤ ( Depression ) کی شکار ہیں – بین الاقوامی تنظیم میڈیسن سائنس فرنٹیئرز (MSF) کی ایک تحقیق کے مطابق وادئ کشمیر میں پنتالیس (45) فی صد آبادی نفسیاتی پریشانی میں مبتلا ہے۔ وادئ کشمیر کے ماہرِ نفسیات (Psychiatrist) کا ماننا ہے کہ ذہنی تناؤ ، جسمانی دباؤ (Stress) اور منشیات کی بُری عادت (Drug Abuse ) کا لگنا خودکشی کے بنیادی اسباب ہیں – اس کے علاوہ ریاست میں نوے کی دہائی سے چل رہی مسلح تصّادم آرائی ( Armed conflict ) جیسی صورتحال کے ہونے سے یہ تناسب مزید بڑھ چکا ہے – کورونا وائرس سے پیدا شدہ عالمی معاشی بحران کی تنزلی اور سماجی روابط پر عائد پابندی سے بھی حالات مزید خراب ہوگئے ہیں – جس سے خودکشی کے واقعات رونما ہونے میں مزید اضافہ ہوا ہے –
اِنسان دنیا میں تھوڑی سی کش مکش کرنے کے فورً بعد ناکامی کا منہ لگتے ہی زندگی جیسی انمول نعمت کی خیانت کرنے لگتا ہے – جو سراسر اپنے اوپر ظلم کرنے کے برابر ہے – زندگی میں غربت و افلاس کے سامنا ہونے کا ڈر ، مہلک بیماریوں میں گرفتار ہونا، روزگار کا نہ ملنا، پڑھائی میں ناکام ہونا ، عشق مجوسی میں گرفتاری، محبت میں بے وفائی، تجارت میں خسارہ، گھریلو تشّدد کے شکار، طلاق کی نوبت، غلط تعلقات کا ہونا، سسرال میں طعنہ زنی کے ماحول کا ہونا وغیرہ جیسے خودکشی کا قدم اٹھانے کے بنیادی اسباب ہیں – اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے فعل کی ویڈیوگرافی سے بھی دیگر لوگوں میں تحریک ملتی ہیں –
اسلامی تناظر میں خودکشی
اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے – بلکہ یہ باور کراتا ہے کہ زندگی اور موت کا مالکِ صرف ﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ’’ اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک ﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ” – (البقرة؛ 195)
ایک اور مقام پر ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ اور اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو، بے شک ﷲ تم پر مہربان ہے- اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ ﷲ پر بالکل آسان ہے -” (النساء ؛ 29 تا 30)
احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘ ( البخاری ، کتاب الصوم، رقم: 1874)
درج بالا احکام واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت کے ضامن ہیں اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو ” دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والا ” فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے- حالانکہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کو بھی مصیبت و آلام سے گزرنا پڑا ہو – حضرت ابراہیم ؑ، حضرت ایوبؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسی علیہ السلام کی حیات مبارک پڑھ کر دیکھیں- آپ علیہ السلام کی زندگیوں میں بھی مختلف مصیبت و آلام آئے ہیں لیکن ان سب پیغمبروں نے اس پر صبر کیا اور اللہ رب العالمیین کی رضا کے مستحق ہو گئے –
اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اٹھا کے دیکھیں- کیا آپ ﷺ کو مصیبت و آلام پیش نہیں آئے ؟ بلکہ رسالت کے بعد مکی دور کے تیرہ سالوں میں آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بے انتہا مصیبت و آلام دیکھنے پڑے ہیں – ہر طرف ظلم و جوار کے پہاڑ توڑ دیے گئے – شعیب ابی طالب کی گھاٹی کسی قید خانے سے کم نہیں تھی – لیکن آپ ﷺ کا بے انتہا صبر، برداشت، تحمل عفو و درگزر اس بات کی دلیل ہے کہ ایک امتی کو اس قسم کی نازک گھڑی میں صبر کا سہارا لینا چاہیے –
دنیا میں ہر ایک چیز کا فنا ہونا واقعی ہے- زندگی قیمتی ہے اس سے ضائع ہونے نہ دیں – شیطان انسان کو پہلے اس سنگین گناہ کی طرف ورغلاتا ہے پھر اُس کو اس فعل کے کرنے پر تیار کرتا ہے- یہاں تک کہ انسان اس برے فعل کو انجام دے کر شیطان کو اپنے اس بے وقوفانہ قدم پر خوب ہنسنے کا موقع دے رہا ہے – اس دنیا کے اندر بڑے سے بڑے تکلیف تو دائمی نہیں ہے- ہر مشکلات کے بعد آسانی ہے – یہاں سے جانے کے بعد کی زندگی ابدی ہے جہاں کے عیش و آرام بھی دائمی ہے ۔ اِس لئے سمجھدار انسان وہی ہے جو اس گلستان میں زندگی کی قدر کرنا سیکھیں ۔
خودکشی کے سدباب
خودکشی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ہمارے لئے ایک المیہ ہے جس پر اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو نتائج بیانک ہو سکتے ہیں- اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس حرام فعل سے کیسے بچ سکتے ہیں – قارئین کرام مندرجہ ذیل تدابیر پر عمل پیرا ہو کر خودکشی جیسے سنگین مسئلے کو قابو میں لایا جا سکتا ہے –
۱- سب سے پہلے اس انتہائی اقدام کے خلاف والدین کو آگے آکر اپنے بچوں پہ خاص نظر بنائے رکھنی چاہیے –
۲- اساتذہ صاحبان کے ساتھ ساتھ امام و خطیب حضرات کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے – عوام الناس میں تعلیمی اداروں، پنچایتوں و دیگر اداروں اور مساجد میں جمعۃ المبارک کے موقع پر خوب آگاہی پھیلائی جائیں –
۳- پریشانیوں میں مبتلا ہر ایک فرد پہ نظر بنائے رکھیں – انہیں قبل از وقت صحیح طور پر صلح و مشورہ سے مستفید کریں اور مناسب مداخلت (Proper Intervention) کر کے قیمتی جان بچانے کی کوشش کریں –
۴- ماہر نفسیات کی طرف رجوع کر کے ذہنی تناؤ اور جسمانی دباؤ کو دور کرنے کی کوشش کریں-
۵- زندگی جینے کا صحیح ڈھنگ (Lifestyle) سیکھیں، اپنے ساتھ دوسروں کو نھی خوش رکھنے کا گن سیکھیں-
۶- ہر شہر، قصبہ، گاؤں اور محلوں میں فعال اور منظم طریقے کے فلاحی ادارے قائم کریں جو کسی بھی طریقے سے معاشی حالت کو مستحکم بنائے رکھیں –
۷- نجی سطح پر دستیاب ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کریں – انہیں اپنے اندر پنپنے والے بُرے خیالات سے آگاہ کر کے صحیح مشورہ حاصل کریں –
۸- مستقل طور پر جسمانی اور ذہنی ورزش کیا کریں تاکہ صحت مند زہن صحت مند جسم میں خوب نشو ونما پائیں سکیں –
۹- اسلامی تعلیمات کی طرف اپنا توجہ مبذول کریں، علماء حق سے اپنا تعلق بنائے رکھیں اور بے قرار دلوں کو قرآن کی تلاوت سے مزیں کریں –
۱۰- خودکشی کے واقعات کو پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے علاوہ سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی تشہیر دینے سے گریز کریں – گلامیراءزیشن سے اس ناسور کی طرف دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب ملتی ہیں –
۱۱- خودکشی کرنے والوں کے جنازے میں شرکت کرنے سے اجتناب کریں اور ایسے مواقع پہ لوگوں کو اس حرام فعل سے آگاہ کریں –
الغرض خلاصہ کلام یہی ہے کہ زندگی قیمتی ہے اس سے ضائع نہ کریں – زندگی گلزار ہے اس سے مہکتے پھولوں سے رنگین بنائیں – یہاں کی چند روزہ زندگی کے ساتھ اپنی دائمی و ابدی زندگی کو ویران نہ بنائیں- اپنا خاتمہ کرنے کے بعد والدین و دیگر اقارب کی زندگی کو اجاڑنے کی کوشش نہ کریں- انہیں ہمیشہ کے لئے آگ کی تندور میں نہ ڈالیں- اپنے کُھلے دشمن یعنی شیطان کے اشاروں پر ناچنے سے پرہیز کیا کریں – تب جا کے ہم اپنے دونوں جہانوں کو گلزار بنا پائیں گے ۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ہمیں دینِ اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین
تحریر:-بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال
رابطہ – 9858109109