الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
بنی نوح نے جہاں ترقی کی کئی منازل طے کی ہیں اور انقلاب بپا کیا ہے تو وہیں اِس کی یہ ترقی کرئہ ارض پر رہنے والی دوسری مخلوقات کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہورہی ہے۔نظام ِ قدرت نے ہر ایک چیز میں ایک توازن قائم رکھا ہے اور ہم جب اِس نظام کو اپنی سوچ سمجھ کے مطابق چلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس میں عدم توازن پیدا ہونا فطری عمل ہے۔
تیزی کے ساتھ دُنیا بھر میں بڑھتی آبادی کی وجہ سے انسانی رہائشی بستیوں کے نزدیک موجود جنگلات کی کٹائی بھی اتنی ہی رفتار سے جاری ہے، جس وجہ سے جنگلات سُکڑتے جارہے ہیں او ر اِس میں رہنے والے چرند پرنداور جنگلی جانوروں کی تعدادگھٹتی جارہی ہے اور جو ہیں وہ بھوک کی وجہ سے مار رہے ہیں۔ اگر وہ انسانی بستیوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں آکر بے موت مارے جاتے ہیں۔
میں یہاں پر صرف بندروں کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کی عادتیں انسانوں نے خراب کیں اور آج کئی علاقہ جات میں یہ بندر انسانوں کے لئے درد ِ سر بھی بنے ہیں اور کئی مقامات پر اِن کی اموات بھی ہورہی ہیں۔جموں اودھم پور ، کٹرہ اور ریاسی شاہراہ ہو یا وادی کشمیر کے متعدد مقامات پر راستے میں سڑک کنارے بندرہوتے ہیں جوکہ وہاں سے گذرنے والی ہرگاڑی کی طرف لپکتے ہیں کہ اُنہیں کھانے کے لئے کچھ ملے گا۔ بہت سارے لوگ بریڈ، کیلے و دیگر میوہ جات وغیرہ سڑک کنارے بندروں کو ڈالتے ہیں، اس لئے سڑک کے دونوں اطراف کثیر تعداد بندروں کی موجود رہتی ہے اور وہ کچھ ڈالے جانے پر لپک پڑتے ہیں۔
ہائی کورٹ کمپلیکس جموں جو کہ جنگل کے قریب واقع ہے، میں کثیر تعداد میں بندروہاں کنٹین کے پاس پہنچ کر وکلاءاور عام اگر چائے یا کھا کھا رہے ہوتے ہیں تو اُن کے ہاتھوں سے جھپٹ کر چھین لے جاتے ہیں۔جموں کے کئی مضافاتی علاقہ جات میں بھی بندروں کا حملہ آور ہوکر کھانے پینے کی اشیاءلے جانا یا دُکانوں، رھیڑیوں سے سامان اُٹھالینا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ اِن علاقوں میں چھوٹے بچوں کو اکیلے اسکول بھیجنا بہت مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اُن کے ہاتھوں میں کھانے کی کوئی چیز ہوگی تو یہ بند ر چھین لے جاتے ہیں ۔
بندروں کی اِن عادات کے لئے بہت حد تک ہم لوگ ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے ہمدردی کے نام پر اُن کی عادات خراب کر دی ہیں، اُن کو ہم نے انسانوں پر منحصر کر دیا ہے، ایسا نہیں کہ جنگلات میں بندروں کو کھانے کے لئے کچھ دستیاب نہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کے لئے بہت سے نعمتیں رکھی ہیں لیکن وہاں اِن کو خوراک کے لئے تھوڑی مشقت کرنا پڑتی ہے، ہم انسانوں نے اِن کو بلا مشقت کئے کھلانے کی عارضی عادت تو ڈالی لیکن اُن کو پیٹ بھر کر کھلانا ہمارے بس کی بات نہیں، یہ خالق ِ کائنات کی ہی قدرت ہے ۔
فیڈنگ کی عادت ڈالنے کی وجہ سے جنگلی جانوروں کاشاہراو ¿ں اور عوامی مقامات کی طرف رُخ معمول بن گیا ہے ، جہاں عوامی مقامات پر یہ کئی مشکلات کا سبب بن رہے ہیں وہیں، سڑکوں پر کئی حادثات بھی ہوتے ہیں جس میں یہ مارے جارہے ہیں اور کوئی دِن ایسا خالی نہیں جب ایسے حادثات میں جنگلی جانور بُری طرح سے گاڑیوں کے نیچے آکر کچلے نہ جائیں۔
گذشتہ دنوں ریاسی کورٹ کی طرف جاتے وقت کٹرہ۔ ریاسی شاہراہ پر ایک چھوٹا بندر کا بچہ بُری طرح سے کچلا پڑا تھا اور ساتھ ہی ایک بڑا بندر بھی، غالباً وہ اُس بچے کی ماں تھی، جوبچے کے ساتھ ساتھ خود بھی جان سے ہاتھ دھوبیٹھی۔
جنگلی جانوروں کو کچھ بھی کھانے کے لئے نہیں ڈالنا چاہئے۔ اِس سے وہ انسانوں پر منحصر ہوجاتے ہیں، جنگلات سے انسانی بستیوں ، شاہراو ¿ں اور اہم جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ جنگلی جانوروں سے ہمدردی ٹھیک مگر اُن کی Feedingنقصان دہ ہے۔ وائلڈ لائف ایکٹ 1972کی سیکشن 2کی سب سیکشن16کے تحت جنگلی جانوروں کو کھلانا جر م ہے اور اِس پر سزا بھی ہوسکتی ہے۔
بندروں سے کچھ لوگوں کا مذہبی عقیدہ بھی وابستہ ہے اور وہ اُنہیں کھلانا نیکی سمجھتے ہیں، اُن کے عقیدے کا حد درجہ احترام مگر ہمیں اِس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جب ہم شاہراو ¿ں پر اُنہیں کھلاتے ہیںتو اِس وجہ سے اُن میں سے کچھ کی موت بھی واقع ہورہی ہے۔ ہمیں اِس کا ایسا متبادل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہت سے رضاکار جنگلی جانوروں کے حقوق پر کام کر رہے ہیں، بہت ساری غیر سرکاری رضاکر تنظیمیں ہیں، ادارے اِن کے حقوق کے لئے کام کر رہے ہیں،اُنہیں چاہئے کہ وہ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ جنگلات کا کٹاو ¿ کم سے کم ہو اور جنگلات کے اندر وافرمقدار میں پھلدار درخت اُگائے جائیں جن سے جنگلی جانوروں کی فیڈنگ کا اچھا خاصا قدرتی انتظام ہوجائے۔
یوم ِ ماحولیات، یوم ِ جنگلات یا وائلڈ لائف ڈے پر ہم کئی پروگرام منعقد کرتے ہیں ، شجرکاری کرتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ اِس روز جنگلات کے اندروانی احاطہ میں میوہ دار درختوں کی شجرکاری زیادہ سے زیادہ کریں ۔شاہراہ پر کئی مقامات پر یہ سائن بورڈ بھی نصب ہیں کہ جنگلی جانوروں کو فیڈنگ کرنا جرم ہے لیکن اِس پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور اِس پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔ انتظامیہ کو بھی چاہئے کہ وہ اِس پر عمل آوری کو یقینی بنائے، شاہراو ¿ں پر اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں یا ایسے علاقہ جات جہاں کثرت سے جنگلی جانوروں کی لوگ فیڈنگ کرتے ہیں ، وہاں پر عملہ کی تعیناتی ہو، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہئے تاکہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ ہماری ایسی ہمدردی سے جنگلی جانور روزانہ بے رحمی سے مارے جاتے ہیں۔
اِ س کرئہ ارض پر لاکھوں اقسام کے چرند، پرند اور جانور ہیںاور سب کی روزی روٹی کا انتظام خالق ِ کائنات نے بہترین انداز میں کیا ہے، ہمارے بس کی بات نہیں کہ ہم ایسی جرئت کرسکیں۔ فطرت کے اصولوں کے منافی افعال ہمارے لئے ہی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ جنگلی جانوروں کو فیڈنگ کی عادات ڈال کر انسانوں پر انحصار کی بجائے جنگلات کی تیزی سے کٹاو ¿ کو بچائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کالم نویس جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے وکیل ہیں
ای میل:altafhussainjanjua120@