نیوز ڈیسک//
سرینگر/09جولائی:کشمیر میں ایک طویل عرصے سے کینسر مریض سامنے آرہے ہیں۔ ایک مرحلے پر لگتا تھا کہ ہر مرنے والا شخص کینسر کی وجہ سے مرجاتا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر اس مرض کے لئے بہت سی وجوہات بتانے لگے۔ کبھی نامناسب غذا کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کہیں چائے کا زیادہ استعمال اس کی بنیادی وجہ بتائی گئی۔ کچھ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ گرم مسالوں کا حد سے زیادہ استعمال کینسر کا باعث بنتا ہے۔ سی این آئی کے مطابق اس بات کا انکشاف ہوا کہ کشمیر میں روزانہ کینسر کے تین مریض سامنے آتے ہیں۔ سرینگر کے ایک بڑے ہسپتال کا ریکارڈ دیکھنے سے پتہ چلا کہ یہاں ہرروز تین کینسر مریض تشخیص کئے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ایک ہسپتال کا ریکارڈ دیکھنے سے سامنے آئے۔ دوسرے ہسپتالوں کے بارے میں ابھی معلوم نہیں کہ وہاں ایسے مریضوں کی تعداد کتنی ہے۔ صورہ کے میڈیکل انسٹی چیوٹ سے پتہ چلا ہے کہ پچھلے تین مہینوں کے دوران جانچ کرنے والے شعبے نہ پتہ لگایا کہ وہاں آئے کل مریضوں میں ایک ہزار سے زیادہ مریض کینسر کے موزی مرض سے متاثر پائے گئے۔ اس وجہ سے عوامی حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ پچھلے دو سالوں سے پوری دنیا میں طبی حلقے کووڈ مریضوں کی گنتی کرتے رہے ہیں۔ اس وبا نے بڑی تعداد میں لوگ موت سے دوچار کئے۔ اس دوران ہر روز اور ہر ملک سامنے آنے والے ایسے مریضوں کی تعداد بتائی جاتی رہی۔ اس وبا نے عالمی سرگرمیوں پر روک لگادی اور سارا نظام زندگی تہس نہس ہوکر رہ گیا۔ اب کچھ ہفتوں سے اس مرض پر قابو پایا گیا۔ کشمیر میں اکا دکا کووڈ متاثر کیس سامنے ا?تے ہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا کہ کووڈ وبا پر بہت حد تک قابو پایا گیا۔ ادھر یہ انکشاف ہوا کہ کشمیر میں ایک بار پھر کینسر کا مرض پھیل رہا ہے اور لوگ بڑی تعداد میں اس کا شکار ہورہے ہیں۔ اس وجہ سے سخت پریشانی بڑھنے لگی ہے۔کشمیر میں ایک طویل عرصے سے کینسر مریض سامنے آرہے ہیں۔ ایک مرحلے پر لگتا تھا کہ ہر مرنے والا شخص کینسر کی وجہ سے مرجاتا ہے۔ اس دوران ڈاکٹر اس مرض کے لئے بہت سی وجوہات بتانے لگے۔ کبھی نامناسب غذا کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا گیا۔ کہیں چائے کا زیادہ استعمال اس کی بنیادی وجہ بتائی گئی۔ کچھ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ گرم مسالوں کا حد سے زیادہ استعمال کینسر کا باعث بنتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ کھانڈ کے بے جا استعمال سے کینسر کا مرض پھیل رہا۔ بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی تنائو اس کی اہم اور بنیادی وجہ ہے۔ کوئی متفقہ بات کہی گئی نہ ایسا کہنا ممکن ہے۔ بلکہ اس کے علاج کے لئے بھی الگ الگ رائے ہے۔ وجوہات اور علاج معالجے سے قطع نظر تشویش کی بات یہ ہے کہ اس مرض کی وجہ سے کئی خاندان جانی اور مالی طور خسارے کا شکار ہوئے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ یہ ایک لاعلاج مرض ہے۔ دوسری طرف اس کے علاج پر بے حد پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری جڑ سے ختم تو نہیں ہوتی۔ لیکن علاج سے اس کے اثرات کو مبینہ طور پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ لیکن علاج کے لئے سکت سے زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ تاہم اس وجہ سے ایسے مریضوں کو بڑی راحت ملی کہ سرکار ادویات اور دوسرے مدات پر اخراجات خود اٹھاتی ہے۔ جب سے حکومت نے لوگوں کو گولڈن کارڈ فراہم کئے اس وقت سے کافی راحت میسر آئی۔ خاص طور سے جان لیوا امراض میں مبتلا مریضوں کو بڑے پیمانے پر راحت حاصل ہوئی۔ کشمیر میں پچھلے کئی سالوں کے دوران گردے خراب ہونے کا مرض بھی بڑے پیمانے پر پھیل رہاہے۔ ایسے مریضوں کو ڈائیلسز پر لاکھوں روپے خرچ آتے ہیں۔ اسی طرح ٹیومر کا مرض بھی بڑے پیمانے پر پھیل رہی۔ ٹیومر کے مرض کا علاج اور سرجری معمولی خرچ سے ممکن نہیں۔ اس کے لئے بھی کافی اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ کچھ سال پہلے دیکھا گیا کہ ایسے مرض میں مبتلا کئی مریضوں کو اپنی ساری جائداد فروخت کرنا پڑی۔ پھر کہیں جاکر انہوں نے اپنا علاج کرایا۔ جب سے گولڈن کارڈ فراہم کئے گئے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو کافی راحت ملی۔ اس کارڈ کا دیانت داری سے استعمال کیا جائے تو کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ کئی لوگ پرائیویٹ نرسنگ ہوم مالکان سے ساز باز کرکے فرضی کیس بناکر پیسے بٹورتے ہیں۔ اس فراڈ پر قابو پانا ضروری ہے۔ ادھر یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ کچھ نام نہاد ڈاکٹر کینسر کے فرضی کیس بناکر انہیں مخصوص دکانوں سے ادویات خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے عوض انہیں خاصا کمیشن ملتا ہے۔ کمیشن حاصل کرنے کے لئے یہ ڈاکٹر بلا وجہ مریضوں کو کینسر کا شکار قرار دیتے ہیں۔ سادہ لوح مریض ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور یہ ڈاکٹر کافی کمائی کرتے ہیں۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں۔ پولیس ڈرگ مافیا کے پیچھے پڑی ہے اور اس کو قابو کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ڈاکٹروں کا مافیا کھلے عام غریب عوام کو لوٹ رہا ہے اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔