سری نگر:جموں وکشمیرمیںقائم پرائیویٹ اسکولوں میں زیرتعلیم طلبہ کے فیس کاتعین کرنے والی ’فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی‘ (FFRC)نے سرینگر کے ایک پرائیویٹ سکول’ٹائنی ہارٹز‘ میں بد انتظامی کاسخت نوٹس لیتے ہوئے ایک تاریخی فیصلے میںحکومت سے کہاہے کہ وہ مذکورہ نجی تعلیمی ادارے کانظم ونسق اپنی تحویل میں لینے کیلئے اقدامات کرے تاکہ ا سکول میں زیر تعلیم طلبہ کے تعلیمی مستقبل کوبچایاجاسکے۔ جے کے این ایس کے مطابق ایف ایف آر سی چیرمین ریٹائرڈ جسٹس مظفر حسین عطار نے ایک حکمنامہ زیر نمبر 58بتاریخ 29جولائی 2021جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سرینگر کے ایک نجی سکول ٹائنی ہارٹز سکول واقع ٹینگہ پورہ کے ریکارڈ سے پتہ چلا ہے کہ ا سکول کو درس و تدریس کے بجائے پیسہ بٹورنے کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایف ایف آر سی کو سکول میں زیر تعلیم طلبہ کے والدین کی جانب سے کئی شکایات موصول ہوئی تھیں جن کو زیر غور لاکر کمیٹی نے یہ احکامات صادرکئے ہیں ۔ حکمنامے میں پرنسپل سیکریٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو مطلع کیا گیا ہے کہ وہ’ ٹائنی ہارٹز ـ‘نامی سکول کیلئے ایک منتظم (ایڈمنسٹریٹر)کی تعیناتی عمل میں لائیں تاکہ ا سکول میں زیر تعلیم قریب ایک ہزار طلبہ کا مستقبل بچایا جاسکے۔ حکمنامے میں ایڈمنسٹریٹر کو یہ اختیار دینے کی سفارش کی گئی ہے کہ وہ درس و تدریس کے نظام کو چلانے کیلئے صرف ٹیوشن فیس وصول کرے ۔ اس فیس سے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہوں کے اخراجات اداکرنے اورباقی بچت ہونے والی رقم کو ایک علیحدہ کھاتے میں جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ چیرمین فی فکزیشن اینڈ ریگولیشن کمیٹی مظفر حسین عطارنے مذکورہ پرائیویٹ سکول میں بدانتظامی کے بارے میں کئی انکشافات کئے ہیں ۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سکول انتظامیہ نے غیر قانونی طور پر طلبہ سے ایڈمشن فیس وصول کیا ہے ۔اسکول میں طلبہ اور سٹاف کیلئے کوئی قابل اطمینان سہولیت دستیاب نہیں رکھی گئی ہیں۔اسکول میں کلاس رومز یعنی مختلف جماعتوں کے کمروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ بنی ہوئی ہے۔ یہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ والدین کو ایڈمیشن یاداخلہ فیس اور سالانہ فیس کے عوض جعلی رسید دئے گئے ہیں اور رقومات کوایک منظم طریقے سے ہڑپ کرکے کہیں اور منتقل کیاگیاہے۔ یہ بھی انکشا ف کیا گیا ہے کہ ا سکول انتظامیہ نے اچانک سالانہ فیس 700روپے کے بجائے6ہزار مقرر کردیا ہے۔ حکمنامے میں وضاحت کی گئی ہے کہ قانونی اعتبار سے جو شخص تعلیمی ادارہ چلاتاہے، اسکو کئی مفادات حاصل ہیں جن میں ٹیکس سے چھوٹ وغیرہ جیسے مفادات بھی شامل ہیں لیکن قانونی اعتبار سے پرائیویٹ اسکول کوایک خیراتی ادارے کی طورپر چلانا ہوتاہے۔ حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس نجی ا سکول میں بد انتظامی کی وجہ سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے ، اور اب یہ ایک قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ طلبہ کے مفادات کاتحفظ کیا جائے ۔ حکمنامے میں ان اختیارا ت کے بارے میں تفصیلات درج ہیں ج کمیٹی کوجموں وRTE ایکٹ 2009اور کمیٹی رولز کے تحت حاصل ہیں۔ حکمنامے میں چیئرمین مظفر حسین عطار نے سکول مالکان پر واضح کردیا ہے کہ تعلیمی ادارے قانونی اعتبار سے عوامی اثاثے ہوتے ہیں اور جوشخص ایسے ادارہ قائم کرتے ہیں انہیں اسی جذبے سے ان اداروںکو چلانا چاہئے نہ کہ ایک مالک کی حیثیت سے ۔ قانونی اعتبار سے وہ ہر اقدام کے لئے ذمہ داراور جوابدہ ہوتے ہیں۔