سرینگر:فرقہ پرست جماعتوں پر آپسی بھائی چارے پر حملہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری ہے جو ساڑھے 18فیصد ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہاں نوکریاں دینے کے بجائے نوکریاں چھینی جاتی ہیں اور گوجر ۔پہاڑی،کشمیری۔گوجر کرنا چاہتے ہیں جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ کے این ایس کے مطابق مینڈھر میں ڈاک بنگلہ میں منعقدہ تقریب کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہاکہ مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر میں ترقی میں رکاوٹ کیلئے دفعہ370اور 35Aکو اڑچن قرار دیا تھا، ان خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد اب جو ترقی کے بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں، وہ بالکل غلط ثابت ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایک تو پہلے ہی لوگوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں، لوگوں کا تشخص چھینا گیا اور اس کے بعد اب ترقی جو جو ڈھونگ مچارہے ہیں، وہ سراب ثابت ہورہا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ ’مجھے کہیں بھی جتنے لوگ ملے، وہ شکایتیں کررہے ہیں، سڑکوں کا حابرا ہے اور بجلی کا حال اسے بھی بے حال ہے، بے روزگاری سب سے بڑی چیز ہے‘۔ انہوںنے کہاکہ پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کے وقت میں رہبر تعلیم ٹیچر سکیم کے ذریعہ لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار ملا، اس کے بعد پھر رہبر صحت اور رہبر زراعت جیسے روزگار سکیموں کو متعارف کیا گیا لیکن آج کچھ بھی تو نظر نہیں آرہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہاں تک کہ سرحدوں پر بٹالین بنتی تھی،و ہ بھی بند ہوگیا ہے اور پونچھ اور سرنکوٹ میں دیکھا کہ گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی لڑکے بھی ایس پی او کی نوکریوں کیلئے درخواستیں جمع کرتے ہیں، وہ بھی انہیں نہیں ملتی ہیں۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ ’’ہماری ریاست میں ساڑھے18فیصدی بے روزگاری ہے جو ملک میں سے سے زیادہ ہے جو پہلے کے برعکس ہے جب یہاں دفعہ370موجود تھا‘‘۔ انہوںنے کہاکہ دفعہ 370نہ صرف یہاں کے تشخص کی رکھوالی کرتا تھا بلکہ ہماری زمینوں، نوکریوں حتیٰ کہ ہر چیز کی رکھوالی کرتا تھا ۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ بدقسمتی سے ابھی تو نوکریاں دینے کے بجائے نوکریاں لی جاتی ہیں، آنگن واڑی ورکروں کوبرخواست کرنے کی بات ہورہی ہے، جموںو کشمیر میں کئی ملازمین کو برکواست کیا جارہا ہے اور نوکریاں دینے کے بجائے لی جاتی ہیں۔ پی ڈی پی صدر نے کہاکہ ’’ اس کے ساتھ ساتھ میں دیکھتی ہوں کہ یہاں کا جو بھائی چارہ ہے، ہندو مسلم اکھٹے رہتے ہیں، اُس پر بھی کہیں نہ کہیںجو ’’کمیونل ‘‘جماعتوں کاجماوڈا ہے، وہ اُس پر بھی اٹیک کرنا چاہتے ہیں،بھائی بہنوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں،گوجر ۔پہاڑی کرنا چاہتے ہیں، کشمیری۔ گوجر کرنا چاہتے ہیں، تو یہ صحیح نہیں ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے،یہاں بھی خوف ہے، یہاں بھی ڈر ہے کہ بات کریںگے تو پکڑ کر لے جائینگے‘‘۔ انہوںنے کہاکہ’’کہیں جانا ہوں تو باہر سے تالا لگاتے ہیں، گیٹ بند کرتے ہیں،تو ہم کیا کرسکتے ہیں، آپ کے پاس تو آپ کی زبان استعمال کرسکتے ہو، قلم استعمال کرسکتے ہو، باقی تواحتجاج کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ انہوںنے کہاکہ ابھی آپ ملک میں دیکھے، جہاں بد ترسے بدتر حالات بھی ہیں وہاں بھی لوگ آکے احتجاج کرنے کا حق ہے ان کو، یہاں تو آپ کو احتجاج کرنے بھی نہیں دیتے، اگر آپ کسی چیز کے خلاف پُرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو وہ کرنے نہیں دیتے ہیں، اور جب بھی ان کا دل چاہتا ہے تو نظر بندکردیتے ہیں۔