تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں آرام دہ جو گر نرم و گداز جیکٹ اور ریشمی مفلر سے لیس ہو کر قریبی پارک کی طرح رواں دواں تھا جہاں پر میں دسمبر کی آمد دسمبر کے چمکتے سورج سردی کو خوب انجوائے کر نا چاہتا تھا قریبی پارک میں داخل ہوا تھا دور تک سورج کی سنہری کرنوں کی وجہ سے روشنی سی پھیلی ہو ئی تھی دور تک پھیلے میدان ایک طرف جھیل جس میںمنچلے کشتیوں پر سوار جھومتے نظر آرہے تھے گیندے کے پھولوں کی طویل کیاریاں اپنے دامن پھیلے سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھیں آگے سینکڑوں ہرنوں کے غول در غول چھلانگتے نظر آئے شہر اورباہر کے شہروں سے ہنی مون کے جوڑے اورباقی سیاح مختلف ٹولیوں میں گھاس پر دریاں بچھائے فروٹ کھاتے نظر آئے لوگ تفریح کے غرض سے آئے تھے سب کے چہروں پر قوس قزح کے رنگ بکھرے تھے زندگی چاروں طرف رنگ برنگی تتلیوں کی شکل میں رنگ کی برسات کرتی نظر آرہی تھی ایک سرے سے دوسرے سرے تک سبزہ ہی سبزہ مختلف رنگ کے پھولوں کی کیاریاں دیو ہیکل درخت مٹی کے ٹریک پر واک کرتے پر جوش لوگ اطراف میں پھیلی طویل درختوں کی قطاریں جھولے درخت شاندار دن کا آغاز ہو چکا تھا میری منزل آج پارک کا ایک طرف بسایا گیا مصنوعی جنگل تھا جو اب تیار اور بہت گھنا ہو چکا تھا لیکن جنگل گردی یا جنگل میں مراقبہ کرنے سے پہلے میں لمبی واک کر کے جسم کو گرم کر نا چاہتا تھا لہذا میرے قدم خود بخود تین کلو میڑ لمبے مٹی کے ٹریک کی طرف بڑھ گئے جس کے چپے چپے سے میں برسوں سے واقف تھا ٹریک پر آنے کے بعد میرا ارادہ بھر پور تیز واک تھی پھر میں نے آج جنگل کا حصہ بن کر اُس میں ڈوب جانا تھا دسمبراور دسمبر کی دھوپ جو بن پر تھی سارا ماحول بنا ہوا تھا جس کی مجھے تلاش تھی میں شروع میں آہستی پھر تیز تیز چلنے لگا تاکہ فالتو چربی کے ذخائر کو زدلگائی جا سکے بڑھتی عمر کے ساتھ میرا وزن بھی بہت بڑھ چکا تھا میںکو شش میں تھا اِس کو کم کر سکوں مٹی کے ٹریک پر ہر عمر کے لوگ جوڑے آہستہ قدموں سے چل رہے تھے درمیان میںنوجوان ہمیں کراس کر تے جارہے تھے جوانوں کے پھرتیلے جسم پھرتی تیزی دیکھ کر اپنا بچپن جوانی یاد آگئی جب گرائونڈ میں جاتے ہی جیسے جسم میں سپرنگ لگ جاتے تھے دل سے آہ سی نکلی جوانی جوانی ہو تی ہے جب تازہ سرخ خون رگوں کو پھاڑ کر باہر نکلنے کو تیار ہو تا ہے چہرے پر گلابوں کی سرخی جوان خون کی نشانی اِس دوران دو تین آشنا چہروں کو ہاتھ سے سلام کر تا میں چل دیا تین چکر لگانے کے بعد جسم اب نڈھالی کا شکار ہو رہا تھا اور میرے قدم پارک کے اُس گوشے کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں جنگل جوان اور گھنا ہو چکا تھا جنگل سٹارٹ ہو ا تو درمیان میں بجری ڈال کر تنگ راستے تھے جس پر چل کر آپ جنگل کے درمیان جا سکتے ہیں میرے سامنے جیسے ہی راستہ آیا میں ٹریک سے اُتر کر جنگل میں گھس گیا چاروں طرف مختلف اقسام کے جوان تنا آور آسمان کی طرف جھومتے درخت تھے بہت گھنے خوب چاروں طرف جنگل پھیلا ہوا تھا درمیان میں خودرو جنگلی جڑی بوٹیاں جن کی نیچرل خوشبو سے جنگل کا کونہ کونہ مہک رہاتھا میں چلتا چلتا بہت دور اندر تک آگیا تھا ٹریک لوگوں کا رش بہت پیچھے رہ گیا تھا سکوت سناٹا بڑھتا جا رہا تھا اب میں کافی اندر آکر کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھا جہاں پر بیٹھ کر خاموشی سے سانس کی مشقیں مراقبہ کر سکوں خاموشی سے جنگل کی تنہا ئی کو محسوس کر سکوں جنگل کی نرالی خوشبو خاموشی کو اپنی رگوں باطن میں اتار سکوں پھر مجھے گھاس والی جگہ مل گئی میں جہاں پر دھوپ بھی تھی میں دھوپ والی جگہ کی تلاش میں تھا آرام سے بیٹھ کر اطراف پر گہری نظر ڈالی چاروں طرف درخت ہی درخت خود رو بیلیں جھاڑیاں جنگلی پھولوں کے پودے اڑتے پھرتے خوبصورت خوش رنگ بولتے سریلے پرندے جو انسانوں سے دور جنگل میں زندگی گزار رہے تھے میں بغور درختوں پرندوں کو دیکھ کر قدرت کی رعنائی تخلیق پر غور کر رہا تھا خدا کی خوبصورتی تنوع تخلیق کے انوکھے نرالے رنگ پھر ذکر اللہ شروع کیا تو ذکر کی حلاوت سے جسم و روح پر نشہ سا طاری ہو نے لگا پھر میں نے سانس کے ساتھ اللہ ھو کا ورد کرنے لگا کہ جو صوفیا کرام کا محبوب وظیفہ ہے یہ وظیفہ میں سانسوں کے ساتھ کر رہا تھا زبان بند سانسوں کی مالا پر سمروں میں پی کا نام ذکر کی حلاوت سے جسم پر نشہ استغراق سا چھانے لگا میںاِس رنگ و بو کی دنیا سے دور ہونے لگا میں تھا اور سانسیں لیتا جنگل تھا خدا کے جلوے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے ان جلوئوں کے درمیان میں ذکر اللہ میں مشغول ذکر کی مستی کو قطرہ قطرہ خوب انجوائے کر رہا تھا جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر دماغ کو خالی کر کے لمبے لمبے سانس لے کر میں ایک اور ہی دنیا میں محو سفر تھا جنگل سانس لے رہا تھا میں خدا کے ذکر کے ساتھ سانس لے رہا تھا اِس عمل کے دوران پتہ ہی نہیں چلا کب میرے باطن کے روحانی یونٹ بیدار ہو ئے اور میں رنگ و نور کے جلو ئوں میں غوطے کھانے لگا یہ حالت یہ خواب ناک نیند کا دورانیہ کب تک رہا پتہ نہیں کافی دیر کے بعد میرے خواب ناک اعصاب پر بیداری دستک دینے لگی مجھے میرے ساتھ کوئی اور بھی سانس لے رہا تھا خوف کی لہر سی رگ و پے میں دوڑ گئی آنکھیں کھولی تو پانچ چھ سالہ بچہ میرے سامنے بیٹھا تھا اُس کو گھنے جنگل میں اپنے پاس بیٹھا دیکھ کر میں حیران نظروں سے اُس کی سمت دیکھنے لگا تو وہ بولا سر چائے پانی کیا چاہیے تو پتہ چلا بیچارہ مزدور بچہ ہے میں انکار کیا تو اُس نے بڑھ کر میرے قدم پکڑ لیے اور بولا سر آپ کو دبا دوں آپ تھک گئے ہو نگے تو میں نے پائوں پیچھے کر لیے تو وہ بولا سر بھو کا ہوں پائوں دبوالیں کھانا کھانا ہے اُس کے چہرے سے بھوک ٹپک رہی تھی میرے دل میں خیال آیا اور میں مسکرا کر بولا آئو میں تم کو کھانا کھلاتیا ہوں اُس کو ساتھ لے کر مین گیٹ کے ہوٹلوں کی طرف بڑھنے لگا تو وہ بو لا سر ایک صاحب ہم سب کو کھانا کھلاتے ہیں تو میں رک کر بولا آپ اور کتنے ہو تو وہ بو لا ہم پانچ کا گروپ ہے تو میں بولا ان کو بھی لے کرسامنے ہوٹل پر آجائو پھر وہ اپنے ساتھی بچوں کو لے کر آگیا تو میں نے پوچھا کیا کھاناہے تو اُس نے اشارہ کیا حلوہ پوری کھانی ہے میں ان کو لے کر ہوٹل پر بیٹھ گیا اور آرڈر دیا یہ جتنا کھا سکتے ہیں ان کو کھلاتے جائو پھر گرما گرم حلوہ پوری پر بچے ٹوٹ پڑے باہر دسمبر کی دھوپ اور جنگل سانسیں لے رہا تھا اندر بچے من پسند کھانا کھا رہے تھے میرے باطن میں خوشیوں کے فوارے چل رہے تھے لبوں پر اللہ ھو کا ورد تھا ۔