نام :- پیر محمد عاقب بابا
دین کا ستون:-
حدیث شریف میں ہے: اللہ پاک کی کوئی عبادت ایسی نہیں گئی جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے افضل ہو اور ایک فقیہ یعنی عالم شیطان پر ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ بھاری ہے ۔ ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ ہے ۔ اور حدیث پاک میں ہے دو خصلتیں ایسی ہیں جو کسی منافق میں نہیں ہوتیں ” حسن اخلاق اور دین کی سمجھ بوجھ ۔( ترمذی شریف ح 2693)
عالم دین کا معیار:-
امام غزالی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں فقہ سے مراد وہ نہیں جو تم سمجھتے
ہو ۔ فقیہ کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا یقین رکھے کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے اور اگر اس پر اس بات کی معرفت سچی اور غالب ہوگی تو اس کی برکت سے وہ نفاق اور ریا سے پاک ہوجائے گا۔
لقمان حکیم کی وصیت:-
منقول ہے کہ حضرت لقمان رحمت اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کھجور وصیتیں فرمائیں ان میں ایک وصیت یہ بھی تھی کہ بیٹا علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھا کرو کیونکہ اللہ پاک نور حکمت سے دلوں کو ایسے زندہ کرتا ہے جیسے زمین کو مسلسل بارش سے۔
دل کی غذا:-
حضرت فتح موصلی رحمت اللہ علیہ نے لوگوں سے پوچھا: اگر مریض کو کھانے پینے اور دوا سے روک دیا جائے تو کیا وہ مر نہیں جائے گا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں۔ فرمایا: دل کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر تین دن تک اس سے علم و حکمت کو دور رکھا جائے تو وہ مردہ ہوجاتا ہے۔
• امام غزالی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت فتح موصلی رحمت اللہ علیہ نے با لکل سچ فرمایا کیونکہ جس طرح کھانا بدن کی غذا ہے اسی طرح علم و حکمت دل کی غذا ہے جن کی بدولت وہ زندہ رہتا ہے اور جس کے پاس علم نہیں اس کا دل بیمار اور اس کی موت لازمی ہے ۔ لیکن اسے اس بات کی خبر نہیں ہوتی کیونکہ دنیا کی محبت اور اس میں مشغولیت اس کے احساس کو ختم کر دیتی ہے ، جیسا کہ خوف کے غلبے کے وقت زخم کی تکلیف کا احساس نہیں رہتا اگر چہ تکلیف موجود ہوتی ہے ۔ پھر جب موت اس سے دنیا کے بوجھ اتارتی ہے تب وہ اپنی ہلاکت محسوس کرکے بہت پچھتا تا ہے لیکن پھر یہ اس کے حق میں بے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہے جیسے مدہوش کو نشے اور خوف کی حالت میں لگے زخموں کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اسے خوف اور نشے سے نجات ملتی ہے۔ بے شک لوگ سوچ ہوے ہیں جب مریں گے تو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔
شہر کے حاکم سے ملنے کا وقت نہیں:- عظیم تابعی بزرگ حضرت سالم بن ابو جعد رحمت اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے مالک نے 300 درہم میں خرید کر آزاد کر دیا تو میں نے سوچا کہ اب کون سا پیشہ اختیار کروں ؟ بالآخر علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہوگیا، ابھی سال بھی نہیں گزرا تھا کہ شہر کا حاکم مجھ سے ملنے کے لئے آیا لیکن میں نے اسے اجازت نہ دی۔حضرت ابو اسود رحمت اللہ علیہ نے فرمایا: علم سے بڑھ کر عزت والی کوئی چیز نہیں، بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جبکہ علما بادشاہوں پر حکومت کرتے ہیں۔
مال سے بہتر :- مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت کمیل بن زیاد نخعی رحمت اللہ علیہ سے فرمایا: اے کمیل! علم مالک سے بہتر ہے کہ علم تیری حفاظت کرتا ہے جبکہ مال کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ۔ علم حاکم ہے اور مال محکوم ۔ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے جبکہ علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے۔ مزید فرمایا: رقت بھر عبادت کرنے والے دن بھر روزہ رکھنے والے مجاہد سے عالم افضل ہے اور عالم کی موت سے اسلام میں ایسا رخنہ پڑتا ہے جسے اس کے نائب کے سوا کوئی نہیں بھر سکتا ۔ علم کے ذریعے کامیابی حاصل کرو ہمیشہ کی زندگی پاو گے ۔لوگ مر جاتے ہیں جبکہ علما زندہ رہتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے: جو علم دین حاصل کرے گا اللہ پاک اس کی مشکلات کو آسان فرما دے گا اور اسے وہاں سے رزق عطا فرمائے گا جہاں اس کا گمان بھی نہیں ہوگا ۔
عالم دین کی وفات :- حدیث شریف میں ہے: عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے آسان ہے۔کسی عقلمند کا قول ہے کہ عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔ عالم کا چہرہ غائب ہو جاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔
علم کا اخروی فائدہ:- امام غزالی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں : علم اس وجہ سے بھی افضل ہے کہ تم جانتے ہو کسی چیز کا نتیجہ جتنی عظمت و شان والا ہوگا وہ چیز بھی اتنی ہی فضیلت والی ہوگی اور تم جان چکے ہو کہ علم دین کا اخروی فائدہ اللہ پاک کا قرب مل جانا ہے جبکہ دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ عزت والی وقار میں اضافہ اور طبیعتوں میں ضروری طور پر احترام کرنا پایا جاتا ہے۔ یہ مطلق علم کی فضیلت ہے ۔ پھر علوم مختلف ہیں ، جب علم افضل امور میں سے ہے تو اسے حاصل کرنا افضل کام کی جستجو کرنا اور سکھانا افضل کام کا فائدہ پہنچانا ٹھہرا۔
حدیث شریف میں ہے: مومن عالم مومن عابد پر 70 درجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔
نام :- پیر محمد عاقب بابا
ساکنہ:- گلشن پورہ مرکنڈل بانڈی پورہ
رابطہ:- 7889598823
Email :- [email protected]