• English News
  • e-Paper
  • نگراں ٹی وی
پیر, مارچ ۶, ۲۰۲۳
Nigraan
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Nigraan
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Nigraan
No Result
View All Result

نوجوان نسل میں منشیات کا بڑھتا رجحان لمحہ فکریہ

Nigraan News by Nigraan News
2 منٹ پہلے
Reading Time: 1min read
A A
0
نوجوان نسل میں منشیات کا بڑھتا رجحان لمحہ فکریہ

نوجوان نسل میں منشیات کا بڑھتا رجحان لمحہ فکریہ

FacebookTwitterWhatsapp

سیّدہ طیبہ کاظمی( پونچھ، جموں)

ہمارا معاشرہ، ہمارے نوجوان ایک ایسی برائی کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جو انہیں مختصر وقت کی لذت اور زندگی بھر کے لیے بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔ منشیات کا غلط استعمال کسی بھی غیر قانونی دواسازی کی دوائیوں کا بغیر کسی طبی ضرورت کے استعمال ہے، جو طویل مدت میں افراد پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی منشیات میں ملوث ہونے کی وجہ اخلاقیات میں کمی، سماجی دباؤ، تناؤ سے نمٹنے میں ناکامی، کم ہوتے معاون بندھن ہیں۔ بیشتررپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں کم عمر بچے اس کا شکار ہو رہے ہیں۔منشیات کی لت اوراس کا استعمال کسی خاص جگہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے برے اثرات کا شکار ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے، درحقیقت اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 10 لاکھ سے بھی زیادہ افراد، جس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں، ہیروئن کے عادی ہیں۔ 12 سے 70 سال کی عمر کے لوگ زیادہ تر اس خطرناک مسئلے یعنی منشیات کی لت میں ملوث ہیں۔ بھنگ،چرس، گانجا،ہیروئن اور فارماسیوٹیکل منشیات کے علاوہ نشہ آور ادویات، بھارت میں سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں۔ یہ مادے کئی طریقوں سے لیے جاتے ہیں، کچھ کوکھایاجاتا ہے، ان میں سے کچھ کو سونگھ کر لیا جاتا ہے اور باقی کو نس کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ شراب، تمباکو، سگریٹ یہ وہچیزیں ہیں جو ہر تیسرا شخص بڑے پیمانے پر لیتا ہے اور سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں۔
منشیات کا اضافہ لوگوں کو کچھ سنگین جرائم کی طرف لے جاتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ، گروہی تصادم، قاتلانہ حملے، منشیات کے استعمال سے بڑھتے ہیں۔ اس نشے نے لوگوں کو ذہنی طور پر تباہ کر دیا ہے، ان کی جسمانی، اخلاقی اور فکری نشوونما کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان منشیات کی قیمتوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور پھر یہ لوگ جرم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ وبائی امراض کے سروے کے مطابق منشیات کے غلام افراد میں ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی اور تپ دق کی شرح بہت زیادہ ہے۔منشیات کے استعمال یا اس کی لت نے انفرادی گرو کو تباہ کر دیا ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ نقصان ہے۔ لہذا انفرادی اور قومی سطح پر دونوں کی ترقی میں سنگین رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ اس لت کے برے اثرات صرف ایک فرد پر ہی نہیں بلکہ اس کے خاندان اور ان کے قریبی لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ خواتین بھی زیادہ تر اس مسئلے سے متاثر ہوتی ہیں۔ کئی بار خاندان اس لت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی، نفسیاتی اور صحت کے مسائل کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ مسئلہ صرف بڑے شہروں میں دیکھا جاتا تھا لیکن اب چھوٹے شہر حتیٰ کہ دیہات بھی اس سنگین مسئلے سے دو چارہیں۔اس لعنت سے متاثر ہونے والے لوگوں کی بہت سی مثالیں ہمارے اپنے اردگرد دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نام نہیں بتانے کی شرط پر ایک شخص نے اس لت میں اپنے تجربے کے بارے میں بتایاکہ وہ تمباکو اور سگریٹ کا عادی تھا۔اسکا کہنا ہے کہ’یہ سب میں نے مزاق میں شروع کیا تھا، لیکن دور نکل گیا تھا‘، پھر گھر والوں سے ہزار جھگڑوں کے بعد اس پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ابھی بھی کبھی کبھار پھر سے شروع کرنے کا من کرتا ہے لیکن گھر والوں کے حالات دیکھ کر کنٹرول کر لیتا ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ منشیات جیسی لعنت میں داخل ہو چکے ہیں اگر سماج اور ان کے اہل خانہ کوشش کریں تو وہ ان کو اس سماجی لعنت سے باہر نکال سکتے ہیں۔ان کے الفاظ نے ایک بات بالکل واضح کر دی کہ اکثر معاملات میں ہر چیز تفریح سے شروع ہوتی ہے اور سنجیدہ جدوجہد پر ختم ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں سماجی کارکن سید انیس الحق کہتے ہیں کہ ”بے روزگاری اور بڑھتے سماجی تناؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان منشیات میں اپنی زندگی کودھکیل دیتے ہیں اورپھر انہیں واپس سماجی ٹریک پر لاناکسی مشکل سے کم نہیں ہے“۔ان کے مطابق”نوجوان نسل کو منشیات سے دور رکھنے میں سماج کو اپنا قلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔والدین کو اپنی اولادوں پر سخت نظر رکھنی چاہئے اور ان کے قول و فعل پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے“۔انہوں نے مزیدکہاکہ عوام کو اس سلسلے میں انتظامیہ کا تعاون کرنا چاہئے تاکہ سماج سے اس سماجی علت کو باہر نکال پھینکا جائے۔ایسا نہیں ہے کہ عام آدمی ہی اس کا عادی ہوتا ہے بلکہ دنیا کی کئی بڑی شخصیات بھی منشیات کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ خاندان اور اپنے پیاروں کے تعاون سے چند خوش نصیب لوگ اس مشکل پر قابو پاتے ہیں لیکن ہر کسی کو یہ نعمت نہیں ملتی۔اس لیے یہ بہتر ہے کہ ہم یہ زہر مذاق میں بھی نہ لیں۔واضح رہے کہ منشیات پر قابو پانے کیلئے ملک میں بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم انفرادی سطح پر خود سے یہ عہد کریں کہ ہم نہ تو منشیات لیں اور نہ ہی دوسروں کو لینے دیں، نشے کے عادی افراد کی مدد کریں اور انہیں اس سماجی لعنت سے نجات دلانے میں ان کی مدد کریں۔ جب عوام اور حکومت دونوں مل کر کام کریں گے تب ہی اس برائی کو معاشرے سے نکالا جاسکتا ہے۔ حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے نشے سے بچاؤ کے بہت سے پروگرام ہیں لیکن کم فنڈنگ، ناکافی تربیت اور سروس فراہم کرنے والوں کی مہارتوں میں کمی، دیکھ بھال کے بعد ناکافی سہولیات جیسی بعض رکاوٹوں کی وجہ سے، یہ نشے سے نجات کے پروگرام اتنے موثر نہیں ہیں جتنے کہ ہونے چاہئیں۔اس مسئلے پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے اور اسکول کی سطح سے اتنی تعلیم فراہم کی جانی چاہئے کہ ہر شخص کو معلوم ہو سکے کہ یہ برائی کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ (چرخہ فیچرس)

 

Nigraan News

Nigraan News

متعلقہ خبریں۔

مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

مقامی اخبارات اور ہماری روش

2 منٹ پہلے
مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

اوور لوڈ

2 منٹ پہلے
شب توبہ

سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

2 منٹ پہلے
ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

2 منٹ پہلے
شب توبہ

والدین اور سکول مالکان دست و گریباں ؟

2 منٹ پہلے
بے روزگاری، غربت و افلاس جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے

بے روزگاری، غربت و افلاس جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے

2 منٹ پہلے
مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

طلسمی کانگڑی ۔۔ ایک افسانوی کہانی‎‎

2 منٹ پہلے
ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

ارادہ ۔۔(افسانچہ)

2 منٹ پہلے
یہاں ہر گھر میں نل ہے،مگر پانی نہیں

اتراکھنڈ کے دیہی علاقوں کا حال

2 منٹ پہلے
شب توبہ

آئو اسکول چلیں ہم

2 منٹ پہلے
Load More

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • English News
  • e-Paper
  • نگراں ٹی وی
4th floor firdous shah bulding Abi guzar Srinagar-190001 +911943566963,9419001837,6005481804 RNI:- JKURD/2007/22206 Email:[email protected]

© Designed by GITS - Copyright Daily Nigraan.

No Result
View All Result
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Copyright Daily Nigraan.