جموں وکشمیر میں مرکزی حکومت کی طرف سے منسوخ کئے گئےآرٹیکل 370 کے قدم کو چیلنج دینے والی عرضیوں پرسپریم کورٹ نے پیر کے روز(11 دسمبر) کواپنا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ کے آرٹیکل 370 کے التزام کومنسوخ دیئے جانے والی عرضیوں پرفیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ صدرجمہوریہ کے ذریعہ آرٹیکل 370 منسوخ کئے جانے کا حکم آئینی طورپرایک جائزعمل ہے۔ ہمیں 370 کومنسوخ کرنے میں کوئی بدنیتی نظرنہیں آتی۔ آئینی بنچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے علاوہ سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آرگوئی اورجسٹس سوریہ کانت شامل ہیں۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے انضمام کی تجویز پردستخط سے لے کرآرتیکل 370 کے ہٹائے جانے تک کی کہانی کیا ہے۔
جموں وکشمیرکے انضمام کے خط پرکس نے کیا تھا دستخط؟
سپریم کورٹ آبزرورکی ویب سائٹ پرشائع ہونے والی معلومات کے مطابق 26 اکتوبر1947 کوجموں وکشمیرکے آخری حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان میں شامل ہونے کے معاہدے پردستخط کئے تھے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعہ تین موضوعات پرحکومت کرنے پراتفاق کیا اوریونین کے اختیارات کوخارجہ امور، دفاع اورمواصلات تک محدود کردیا۔
26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا ہندوستان کا آئین
26 جنوری 1950 کو ہندوستان کا آئین نافذ ہوا تھا۔ اس کے آرٹیکل 370 نے تین وسیع خاکہ مرتب کیں۔ آرٹیکل 370 میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اپنی حکومت کی رضامندی کے بغیرجموں و کشمیرمیں الحاق کے آلے کے ذریعہ طے شدہ دائرہ کارسے باہرکوئی قانون نہیں بنائے گا۔ اس میں کہا گیا کہ ہندوستان کو ریاستوں کا یونین ڈکلیئرکرنے والے آرٹیکل 1 اورآرٹیکل 370 کو چھوڑکرآئین کا کوئی بھی حصہ جموں وکشمیرپرنافذ نہیں ہوگا۔ ہندوستان کے صدرآئین کی کسی بھی شق کو جموں وکشمیرپر’ترمیم’ یا ‘استثنیات’ کے ساتھ نافذ کرسکتے ہیں، لیکن ریاستی حکومت کے ساتھ مشاورت سے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 میں ترمیم یا منسوخی نہیں کی جا سکتی جب تک کہ جموں وکشمیر کی آئین سازاسمبلی اس سے اتفاق نہ کرے۔
آرٹیکل 370 کے تحت صدر کا پہلا آئینی حکم
26 جنوری 1950 کو، اس وقت کے صدر راجندر پرساد نے آرٹیکل 370، آئین (جموں و کشمیر پر اطلاق) آرڈر، 1950 کے تحت اپنا پہلا حکم جاری کیا، جس میں جموں و کشمیر میں پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کیے جانے والے اختیارات کے دائرہ کار کی وضاحت کی گئی تھی اور اس کی مکمل حد کو واضح کیا گیا تھا۔ صدارتی حکم نامے میں شیڈول II بھی متعارف کرایا گیا، جس میں ریاست پرنافذ آئین کی ترمیم شدہ دفعات درج تھیں۔
جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل
31 اکتوبر 1951 کو جموں وکشمیرکی 75 رکنی آئین سازاسمبلی تشکیل دی گئی۔ تمام ممبران سری نگرمیں جمع تھے۔ تمام اراکین نیشنل کانفرنس سے وابستہ تھے، جن کی قیادت جموں وکشمیر کے اس وقت کے وزیراعظم شیخ عبداللہ کررہے تھے۔ ان کا مقصد جموں وکشمیرکے لئے آئین کا مسودہ تیارکرنا تھا۔
دہلی معاہدہ
اس کے بعد مرکزی حکومت اورجموں وکشمیر حکومت کے درمیان دہلی معاہدہ 1952 میں ہوا۔ یہ معاہدہ پارلیمنٹ کی طرف سے استعمال کی جانے والی بقیہ طاقتوں (آرٹیکل 248 سے متعلق ہے، جو ریاست یا کنکرنٹ لسٹ (تیسری فہرست) کے دائرہ کارسے باہرہیں۔ اگرآسان طریقے سے سمجھا جائے تو یہ وہ طاقتیں ہیں، جوابھی تک درج نہیں ہوئیں۔ معاہدے میں کہا گیا کہ اس طرح کے اختیارات جموں و کشمیرحکومت کے پاس ہوں گے۔ عام طورپر، پارلیمنٹ دیگرریاستوں میں تمام بقایا اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔ دہلی معاہدے نے ہندوستانی آئین کی بعض دفعات کو ریاست تک بھی بڑھایا، جیسے بنیادی حقوق، شہریت، تجارت (ٹریڈ اینڈ کامرس)، یونین کے انتخابات اور قانون سازی کے اختیارات۔
1954 میں دہلی معاہدہ نافذ کیا گیا
14 مئی 1954 کو اس وقت کے صدرجمہوریہ راجندرپرساد نے آئین کے 1952 کے دہلی معاہدے میں متفقہ شرائط پرعمل درآمد کا صدارتی حکم نامہ جاری کیا۔ صدرکے حکم نے جموں وکشمیر کوعلاقائی سالمیت کی گارنٹی دی اورآرٹیکل 35 اے پیش کیا، جو جموں وکشمیر کے مقامی شہریوں کوخصوصی اختیار فراہم کرتا ہے۔ صدر کا حکم نامہ جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی رضامندی سے منظور کیا گیا تھا۔
1956 میں جموں وکشمیر کا آئین نافذ ہوا
پانچ سال کے عمل کے بعد 17 نومبر 1956 کو جموں وکشمیرکے آئین کو ایک اعلان کے ساتھ اپنایا گیا کہ ریاست جموں وکشمیرہندوستان کے اتحاد کا اٹوٹ حصہ ہے اوررہے گا۔ اسی دن دوپہر 12 بجے جموں وکشمیرکی دستورسازاسمبلی کوتحلیل کردیا گیا کیونکہ اس کی تشکیل اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا۔ دستورسازاسمبلی کے اسپیکرغلام محمد صادق نے اعلان کیا تھا، ’’آج یہ تاریخی سیشن ختم ہورہا ہے اوراس کے ساتھ ہی آئین سازاسمبلی تحلیل ہوگئی ہے۔‘‘ آئین سازاسمبلی نے آرٹیکل 370 کو کمزورکرنے کی کوئی واضح سفارش نہیں کی۔