سرینگر:تعلیمی ادارے مسلسل بند رہنے کے نتیجے میں اکثر بچے موبائل پر مختلف گیمیں کھیلنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں جن میں سے کئی آن لائن گیموں کیلئے رقم بھی خرچ کرنی پڑتی ہے اس طرح گیم کھیلنے سے ایک تو بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے دوسرا انکے والدین کی خون پسینے کی کمائی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔ سی این آئی کے مطابق کووڈ کی وجہ سے مسلسل تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں ۔ سکول، کالج اوریونیورسٹیوں میں کام کاج بُری طرح سے متاثر رہا جبکہ اکثر اوقات تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں۔ تعلیمی ادارے بند رہنے کے نتیجے میں اکثر طلبہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر موبائل پر زیادہ وقت گزاررہے ہیں اور مختلف ویڈیوز، فلمیں دیکھنے کے علاوہ اکثر بچے موبائل پر گیم کھیلتے دیکھے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے ۔ موبائل پر آف لائن گیموں کے علاوہ آن لائن گیم بھی کھیلی جاتی ہے جس میں بچے پیسے ڈال کر گیم میں مختلف چیزیں حاصل کرتے ہیں جن میں ہتھیار، کپڑے ، گاڑیاں اور دیگر چیزیں حاصل کی جاتی ہے جن پر آن لائن رقم درکار ہوتی ہے ۔ ان گیموں کو کھیلنے کے دوران بچے زہنی تنائو بھی محسوس کرتے ہیں اور اکثر بچوں میں چڑچڑا پن ، بے وجہ شرارت ، سر میں اکثر درد ہنا ، چکر آنااب عام بات بن گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بچے اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی خون پسینے کی کمائی بھی ضائع کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سی این آئی نے جب مختلف جگہوں کے والدین سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں گزشتہ برس سے تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے بچے اپنے گھروں میں بے کار بیٹھے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کے ہاتھوں میں دن رات موبائل دیکھنے کو ملتا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اب والدین بھی بچوں کو موبائل پر وقت گزاری سے روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں کیوں کہ حال ہی میں پلوامہ میں جو واقع پیش آیا اب والدین اپنے بچوں کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر کھیل کود کی دیگر سرگرمیاں بھی مفقود ہوچکی ہے پہلے بچے کرکٹ، ہاکی اور والی بال کھیلتے رہتے جن سے ان کی جسمانی قوت بھی بڑھ جاتی تھی اور بچے ذہنی طورپر بھی چست درست رہتے لیکن اب بے اکثر وقت موبائل پر ہی گزارتے ہیں ۔