سری نگر: دنیا کے مختلف حصوں کی طرح وادی کشمیر میں بھی پیر کو موسم بہار کی آمد پر منائے جانے والے تہوار ‘نوروز’ کی تقریبات شروع ہوگئی ہیں۔موسم بہار کی آمد کے جشن کے طور پر منائے جانے والے اس قدیم ترین تہوار کو ایران کے ساتھ ساتھ افغانستان، کشمیر، کردستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، مغربی چین، عراق، ترکی سمیت درجنوں ملکوں و ریاستوں میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار وادی کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔’نوروز’ کے تہوار کے ساتھ ہی وادی میں جہاں چھوٹی بڑی پارکوں میں پھول پودے اور میوہ باغات میں مختلف اقسام کے میوہ درخت لگانے کا باضابطہ آغاز ہو گیا ہے وہیں شہر خاص کے رعناواری علاقے میں واقع بادام واری میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد دلکش شگوفوں کے دیدار سے لطف اندوز ہوئی۔تاریخی ہاری پربت قلعے کے دامن میں واقع بادام واری میں لگے بادام کے درختوں پر پھوٹے شگوفوں سے ہر سو جنت کا سماں بندھ گیا ہے۔یو این آئی اردو کے نامہ نگار کے مطابق بادام واری میں بادام کے درختوں پر پوٹھے سفید و گلابی رنگ کے شگوفے قابل دیدہ ہیں جن سے روح کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ قطعہ اراضی سفید و گلابی رنگ کے پھولوں کے لباس میں ملبوس سیاحوں کی آمد سے مزید خوبصورت نظر آ رہا ہے۔بادام واری میں سیاحوں کے ایک گروپ نے یو این آئی اردو کے نامہ نگار کو بتایا کہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار بادام درختوں کے شگوفوں کا دلکش منظر دیکھا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے بادام واری کا دورہ کیا ہے۔نامہ نگار کے مطابق پیر کو بادام واری کی سیر کرنے والے ہر ایک سیاح و مقامی باشندے کو بادام کے شگوفوں کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے اور ان کے سامنے تصویریں کھینچنے میں مصروف دیکھا گیا۔وادی میں بادام کے درختوں پر رنگا رنگ پھول کھلنے کو موسم بہار کی آمد کا نقیب سمجھا جاتا ہے۔دریں اثنا پیر کو وادی کے بیشتر دیہی علاقوں میں لوگوں کو اپنے میوہ باغات میں درخت لگانے جبکہ گرمائی دارالحکومت سری نگر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں شہریوں کو اپنے مکانوں کے صحنوں میں قائم کئے گئے پارکوں میں پھول پودے لگانے میں مصروف دیکھا گیا۔ اس دوران پھول پودوں اور میوہ درختوں کی منڈیوں میں گاہکوں کا خاصا رش دیکھا گیا۔ایرانی کلینڈر کے مطابق ‘نوروز’ سال نو اور بہار کا ایک ساتھ استقبال کرنے کا دن ہے اور وادی میں اسے موسم بہار کے استقبال اور اس دن رونما ہونے والے تاریخی واقعات کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اگرچہ ‘نوروز’ کی خوشیاں تیرہ دنوں تک منائی جاتی ہیں، جس کے دوران وہاں کے بیشتر سرکاری، نجی و دیگر اداروں میں عام تعطیل ہوتی ہے، تاہم وادی کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں اس تہوار کی خوشیاں قریب ایک ہفتے تک منائی جاتی ہیں اور ‘نوروز’ کے دن یعنی 21 مارچ کو کشمیر میں سرکاری طور پر تعطیل ہوتی ہے۔محققین اور مورخین کے مطابق وادی کشمیر میں ‘نوروز’ کا تہوار گزشتہ کئی صدیوں سے منایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی تہذیب اور تمدن کے کشمیر پر گہرے اثرات سے ہی نوروز کا تہوار یہاں انتہائی جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ایران اور کشمیر کے درمیان پائی جا رہی نزدیکیوں اور یکسان مماثلتوں کے پیش نظر وادی کو ‘ایران صغیر’ یا ‘چھوٹا ایران’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔نوروز کے موقع پر وادی میں ‘کشمیری ندرو’ کا پکوان خاص طور پر تیار کیا جاتا تھا۔ محققین اور مورخین کے مطابق ایران اور کشمیر کا رشتہ بلند پایہ ولی کامل حضرت میر سید علی ہمدانی (رح) کی چودہویں صدی میں ہمدان ایران سے کشمیر تشریف آوری سے جڑا ہے، جنہوں نے تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ اہلیان وادی کو دستکاریاں بھی سکھائی تھیں جن سے لوگ روزگار کمانے کے قابل بن گئے تھے۔حضرت میر سید علی ہمدانی (رح) کی تشریف آوری کے ساتھ ہی ایران سے اولیا کرام کی کشمیر آمد کا ایک سلسلہ چل پڑا جنہوں نے یہاں تبلیغ دین کے فرائض انجام دیے اور لوگوں کو دستکاریاں سکھائیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران میں منائے جانے والے تہوار یہاں بھی منائے جانے لگے جن میں نوروز آج بھی روایتی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ایران اور کشمیر کے درمیان موسمی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ کشمیر کی طرح ایران کا سال بھی چار موسموں پر محیط ہوتا ہے اور موسم بہار کا پہلا دن نوروز کہلاتا ہے جو ایرانی کلینڈر کا پہلا دن بھی ہوتا ہے۔نوروز کے موقع پر کشمیر کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں لوگ اپنے دوست اور اقارب کے گھر جا کر نوروز کی مبارکباد پیش کرتے ہیں جبکہ بچوں میں نقدی کے علاوہ اخروٹ بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ عید کے تہوار کی طرح گھروں میں باضابطہ دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔وادی میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی شجر کاری مہم کا باضابطہ آغاز بھی ہو گیا ہے۔ یو این آئی کے نامہ نگار جنہوں نے پیرکو وادی کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، کو شجرکاری کے حوالے سے معلوم ہوا کہ اہلیان وادی سیب، ناشپاتی، چیری کے ساتھ ساتھ اب سنترے، کیوی اور نیمبو کے درخت لگانے میں خاصی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے مکانات کے صحنوں میں قائم کئے گئے پارکوں میں پھولوں کی نئی اقسام کے پودے لگانے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔پھولوں سے دلچسپی رکھنے والے بعض لوگوں نے اپنے مکانوں کے صحنوں میں باغ گل لالہ کے چھوٹے چھوٹے باغ تعمیر کئے ہیں۔ شہر میں قائم پھول پودوں اور میوہ درختوں کی ایک منڈی کے مالک نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ پھول پودے اور میوہ درخت لگانے کے شوق میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جارہا ہے۔یو این آئی