نیوز ڈیسک
سرینگر//جموں و کشمیر ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (JKDWA) جو آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (AIDWA) سے منسلک ہے، کا ایک روزہ ڈیلی گیٹ کانفرنس سرینگر میں منعقد ہوئی، جس میں جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع سے تقریباً 100 مندوبین نے شرکت کی۔کانفرنس کی کارروائی چلانے کے لیے لطیفہ گنائی(صدر)، سمن کیسر اور ایڈوکیٹ لیلہ خالد پر مشتمل ایک پریزڈیم نامزد کیا گیا۔ کانفرنس میں سینئر سی پی آئی(ایم) رہنما اور ایم ایل اے کولگام ایم وائی تاریگامی مہمانِ خصوصی تھے۔ اجلاس کا آغاز شمالی ہند میں حالیہ سیلابوں کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔ تاریگامی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ یہ کانفرنس ایسے وقت پر منعقد ہو رہی ہے جب اتراکھنڈ، ہماچل پردیش سے لے کر جموں و کشمیر تک پورا ہمالیائی خطہ تباہ کن سیلابوں کی زد میں ہے، جس سے انسانی جانوں اور جائیدادوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین، جو آبادی کا نصف ہیں، معاشرے کی تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انہیں ہمیشہ امتیاز اور فیصلہ سازی سے محروم رکھا گیا۔ انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں خواتین کے کردار کو یاد کرتے ہوئے "نیا کشمیر” پروگرام کے تحت دی گئی برابری کی ضمانتوں کا ذکر کیا، جن میں یونیورسٹی سطح تک مفت تعلیم اور ترقی کے مساوی مواقع شامل ہیں۔اے آئی ڈی ڈبلیو اے کی جنرل سکریٹری کامریڈ مریم دھوالے نے زور دیا کہ مضبوط خواتین تنظیموں کے بغیر صنفی برابری حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ترقی اور قانونی تحفظات کے باوجود خواتین آج بھی امتیاز، جنسی ہراسانی، آمدنی میں فرق اور مواقع کی کمی کا شکار ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو براہ راست 4 فیصد شرح سود پر قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خود انحصاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔ایڈوکیٹ لیلہ خالد نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے دستیاب قانونی پہلوں پر روشنی ڈالی اور خواتین پر زور دیا کہ وہ صنفی امتیاز اور گھریلو تشدد کے خلاف آئینی
اقدامات کا استعمال کرتے ہوئے آگے آئیں۔اے آئی ڈی ڈبلیو اے کی صدر اور سابق وزیر صحت کیرالہ پی کے سریما تھی نے کہا کہ خواتین کی مسلسل جدوجہد نے حکومتوں کو ان کے جائز مطالبات ماننے پر مجبور کیا۔ انہوں نے خواتین کو تلقین کی کہ وہ جنسی ہراسانی، گھریلو تشدد اور دیگر مظالم کے واقعات کی شکایت درج کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اور مندوبین پر زور دیا کہ وہ خواتین، بالخصوص محنت کش خواتین کو ایک مضبوط تنظیم میں منظم اور متحد کریں تاکہ اپنے حقوق حاصل کر سکیں۔دیگر مقررین میں سمن کیسر، لطیفہ گنائی، مسعودہ اختر اور شہینہ اختر شامل تھیں۔کانفرنس کے اختتام پر 15 رکنی ریاستی کمیٹی کا بلا مقابلہ انتخاب عمل میں آیا۔










