سر ینگر:سابق وزیر اعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دفعہ370کے خاتمے کے بعد اب لوگوں سے روشنی کی زمینیں چھینی جارہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ آخر اس عمل کا مقصد کیا ہے؟ حکومت کو یہ زمینیں کس کو دینی ہیں؟ یہ زمینیں تو سالہاسال سے یہاں کے لوگوں کے زیر تصرف ہیں پھر آج ان زمینوں کو چھیننے کا مقصد کیاہے؟ انہوں نے کہاکہ کچھ جماعتوںنے دوغلی پالیسی اپنا کررکھی ہے ۔ ایک دن کہتے ہیں کہ دفعہ370قصۂ پارینہ ہے اور اگلے روز کہتے ہیں کہ دفعہ370تو ہماری وراثت ہے۔ کم از کم نیشنل کانفرنس میں ان چیزوں کو لیکر کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ہم دلی میں بھی وہی بات کرتے ہیں، جموں میں بھی وہی بات کرتے ہیں اور کشمیر میں بھی وہی بات دہراتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سچائی کی لڑائی ہے، یہ انصاف کی لڑائی ہے، یہ ہمارے مستقبل کی لڑائی ہے، یہ ہمارے بچوں کی تعلیم، سکالرشپ اور روزگار بچانے کی لڑائی ہے اور یہ لڑائی زرعی اصلاحات کے ذریعے لوگوں کو حاصل ہوئی زمینوں کو بچانے کی لڑائی ہے اور نیشنل کانفرنس دفعہ370اور 35اے کی بحالی کی لڑائی میں کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔عمر عبداللہ نے خطہ چناب کے عوامی رابطہ مہم کے دوران بھدرواہ میں ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقعے پر پارٹی جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر، صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا،سینئر پارٹی لیڈران سجاد کچلو، اعجاز جان، تنویر صادق، محبوب اقبال اور دیگر لیڈران بھی موجود تھے۔ عمر عبداللہ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جموں وکشمیر کو ہند مسلم سکھ اتحاد ورثے میں ملا ہے اور یہاں کچھ سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو ہمیشہ اسی تاک میں رہتی ہیں کہ کس طرح لوگوں میں جھگڑے پیدا کئے جائیں اور کس طرح سے فسادات برپا کئے جائیں اور بعد میں یہی عناصر مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے آتے ہیں، یہ سیاسی جماعتیں انگریزوں کے فارمولے Divide and Rule(تقسیم کرو اور حکومت کرور)میں یقین رکھتی ہیں۔ہمیں ایسی سیاسی جماعتوں اور ان کی پراکسیوں سے ہوشیار رہنا ہے، ان کی سازشوں کو ہر سطح پر ناکام بنانا ہے اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے بھائی چارے کو قائم ودائم رکھیں گے۔ جموں وکشمیر کی ترقی ، خوشحالی، فارغ البالی اور لوگوں کے مفادات کے بچائو کیلئے بھائی چارے کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔ بی جے پی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ اب یہ کہا جارہا ہے کہ جموں وکشمیر میں جب حالات مکمل طور پر پُرامن ہوجائیں گے ، ملی ٹنسی کے واقعات اور شہری ہلاکتیں بند ہوجائیں گی تبھی جاکر ریاست کا درجہ واپس دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج یہاں کے حالات خراب ہوگئے ہیں اور ملی ٹنسی میں اضافہ ہوا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟نئی دلی میں بھاجپا کی حکومت ہے اور اسی حکومت نے جموں وکشمیر میں لیفٹنٹ گورنر کو بھیجا ہے، اگر سیکورٹی کا نظام خراب ہو اہے، لوگوں کو مارا جارہا ہے، تو یہ کس کا قصور ہے؟بھاجپا یہ کہہ کر عوام کو سزا دے رہی ہے کہ حالات مکمل طور پر ٹھیک ہونے کے بعد ہی ریاست کا درجہ بحال ہوگا۔’’نااہلی آپ کی، ناکامی آپ کی اور سزا یہاں کے لوگ بھگتیں گے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘عمر عبداللہ نے کہا کہ ہمارے دورِ حکومت میں2014تک بیشتر علاقے ملی ٹنسی سے خالی ہوگئے تھے، وادی بھرمیں بنکر ہٹائے گئے صرف شہر سرینگر میں ہی 40سے زیادہ بنکر منہدم کئے گئے لیکن آج کی صورتحال دیکھئے کہ نہ صرف اُن پرانی جگہوں پر واپس بنکر قائم ہوئے ہیں بلکہ اُس سے دوگنی تعداد میں نئی جگہوں پر بنکر کھڑے کئے گئے ہیں۔ ہمارے دورِ حکومت میں شادی بیا اور یگر تقاریب کیلئے کمیونٹی ہال بنائے گئے تھے آج صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کے آرام و آسائش کیلئے تعمیر کئے گئے ان کمیونٹی ہالوں کو فورسز کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔ 5اگست2019کو دنیا کو کہا گیا تھا کہ اب ملی ٹنسی ختم ہوجائے گی، امن و امان کا دور دورہ ہوگا، پنڈت دفعہ370کی وجہ سے کشمیر واپس نہیں آپاتے تھے لیکن اب اُن کی واپسی ہوگی لیکن حکومت دکھائے کہ گذشتہ اڑھائی سال میں کون سا امن قائم ہوا؟ ملی ٹنسی کہاں ختم ہوئی اور کہاں پر پنڈتوں کی واپسی ہوئی؟ اُلٹا امن کے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیا گیا، ملی ٹنسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب کشمیر کا کوئی بھی علاقے ملی ٹنسی سے خالی نہیں، نئے پنڈتوں کی واپسی تو دور کی بات اب جو کشمیر میں قیام پذیر تھے وہ بھی واپس بھاگ رہے ہیں۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ گذشتہ ماہ کس طرح سے لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا تھا، بندرو جس نے 1990کی پُرآشوب دور میں بھی اپنی دکان بند نہیں کی ، کو کسی طرح نشانہ بنایا گیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ سب تو بھاجپا کی حکومت میں ہورہاہے ، اس سب کا جواب کون دیگا؟ مرکزی حکومت کے جھوٹ اور فریب کا جواب کون دے گا جن میں کہا جارہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے؟ـانہوں نے کہاکہ آج بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جموں وکشمیر کو یو ٹی بنانے کا کیا مقصد تھا؟ لداخ یو ٹی کا درجہ مانگ رہا تھا لیکن نہ تو کرگل یو ٹی کے حق میں تھا اور نہ ہی جموں اور نہ کشمیر کے لوگوں نے کبھی یو ٹی کا مطالبہ کیا تھا۔ تو پھر جموں وکشمیر کی تاریخی ریاست کے دو حصے کرکے اسے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کیوں کیا گیا؟ اور یوٹی میں تبدیل کرکے جموں وکشمیر میں کون سی بہتری آئی؟کہاں امن قائم ہوا؟ کس کو روزگار ملا؟ کہاں سرمایہ کاری ہوئی، کس جگہ پر نئی یونیورسٹی یاکالج بنا؟ کون سا نیا پروجیکٹ شروع ہوا۔