سری نگر:جموں و کشمیر کاجنگجوئوں کے مبینہ ہمدرد سرکاری ملازمین کیخلاف کریک ڈاؤن اس وقت منظر عام پر آیا جب لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کی زیرقیادت حکومت نے آئین ہند کے آرٹیکل 311(2)(c) کے تحت اہل ہونے والے شواہد کی چھان بین کیلئے ایک کمیٹی کو نامزد کیا۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو بغیر محکمانہ انکوائری کے برطرف کیا جا سکتا ہے جب صدر یا گورنر، جیسا کہ معاملہ ہو، مطمئن ہو ںکہ یہ ریاست کی سلامتی کے مفاد میں ہے۔جے کے این ایس کے مطابق آئین ہند کے آرٹیکل 311(2)(c) کے تحت اپنے پہلے بڑے فیصلے میں10 جولائی2021 کو جنگجوکمانڈرسید صلاح الدین کے2 بیٹوں سمیت 11 سرکاری ملازمین کو ان کی سرکاری ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ سید صلاح الدین کے2 بیٹوںسید احمد شکیل اور شاہد یوسف کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردی کی فنڈنگ کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ اور ساتھ ہی حزب المجاہدین کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کیلئے’حوالہ نیٹ ورک ‘ کے ذریعے رقومات وصول کرنے، جمع کرنے اور منتقل کرنے میں ملوث تھے۔اکتوبر2021 میں، جموں و کشمیر انتظامیہ نے مزید8سرکاری ملازمین کو بدعنوانی اور بدانتظامی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں برطرف کر دیا۔ بدعنوانی کیخلاف ’زیرو ٹالرینس پالیسی‘ پر عمل کرتے ہوئے، یہ کارروائی جموں کشمیر سول سروس ریگولیشنز کے آرٹیکل226 (2) کے تحت کی گئی۔اسکے بعدحکومت نے 28 نومبر کو، 2درجن سے زیادہ سرکاری ملازمین کو مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوںمیں مبینہ طورپرملوث یاشامل ہونے کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا۔برطرف کئے گئے سرکاری ملازمن پر الزام لگایا کہ وہ باغی گروپوں کیلئےOGWs (بالائی زمین ورکرز) کے طور پر کام کر رہے ہیں۔اس دوران بتایاجاتاہے کہ جنگجوئیانہ سرگرمیوںمیں شامل یاملوث رہے سرکاری ملازمین کے بارے میں شواہد کی چھان بین کرنے والی اعلیٰ اختیاری کمیٹی کے پاس مزید کئی مشتبہ ملازمین کے معاملات پڑے ہیں اورایسے مزید سرکاری ملازمین کی ملازمت پر بھی تلوار لٹک رہی ہے ۔