مانیٹرنگ//
سرینگر۔ 11؍ مارچ:سری نگر کے شہر خاص علاقے کے رہائشی سیدنا اسماعیل حسین بندے نے آج بھی کبوتر کے شکار کا شوق اپنا رکھا ہے۔چار دہائیوں بعد، اب جب وہ گریجویشن کر کے انجینئر بن چکے ہیں، اس روایتی شوق سے ان کی محبت ابھی تک زندہ ہے۔ آج وہ ایک پیشہ ور کبوتر بازی کے شوقین بن چکے ہیں اور 4400 سے زائد کبوتروں کے مالک ہیں۔ بندے کہتے ہیں "اس پرندے کی صحبت نے مجھے صبر اور نظم و ضبط سکھایا اور یہ اب میری زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔سری نگر کے پرانے کوارٹرز میں کبوتر پالنے کی صدیوں پرانی روایت زندہ ہے، جہاں چھتوں پر، مساجد اور مزاروں کے صحنوں میں اور بازاروں کے ارد گرد کبوتروں کے جھنڈ عام نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پالتو پرندے ہیں، جن کی پرورش وہاں کے ہزاروں کبوتر پرستاروں نے کی ہے۔ ہر جمعہ اور اتوار کو کھلے بازار میں پالتو اور جنگلی کبوتروں کی مختلف نسلیں فروخت ہوتی ہیں، جسے مقامی طور پر کبوتر مارکیٹ کہا جاتا ہے۔کبوتر باز اپنے پرندوں کو دوسرے کبوتروں کے ساتھ گھل مل جانے کے لیے ہوا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی واپسی اکثر آوارہ کبوتروں کے ساتھ ہوتی ہے۔مغربی ممالک کے برعکس جہاں ریسنگ کبوتر غالب ہیں، ہینڈلرز کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اونچی اڑان والے کبوتروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بندے کی طرح ٹیکسی سروس فراہم کرنے والے 33 سالہ عمران احمد بٹ نے کہا کہ انہیں کبوتر پالنے کا شوق ہے۔بہت سے نوجوانوں نے کبوتروں کو شوق اور پارٹ ٹائم کاروبار کے طور پر پالنا اور بیچنا شروع کر دیا۔لیکن کبوتر پالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مالکان سخت سردیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ کوپس صاف کرتے ہیں، چھتوں پر پرندوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کبوتروں کی سال بھر دیکھ بھال کرتے ہیں، انہیں ویکسین اور غذائی سپلیمنٹ دیتے ہیں۔ بندے نے بتایا کہ کبوتروں کی کچھ اقسام بہت مہنگی ہوتی ہیں۔ اس کے پاس دو "ٹیڈی” کبوتر ہیں جن کی قیمت 2,700 امریکی ڈالر ہے۔انہوں نے کہا کہ "ایک عام آدمی کے لیے، وہ تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن کبوتروں کی کچھ نسلیں بہت حساس ہوتی ہیں اور انہیں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔